کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 819
دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ ٭ اس کتاب کا مؤلف مصر کے دو ممتاز علمائے مصر سے روایات نقل کرتاہے جب کہ ابن قتیبہ رحمۃ اللہ علیہ کبھی مصر نہیں گئے اور نہ ان دونوں عالموں سے کوئی روایت نقل کی ہے۔[1] ٭ اہل علم کے نزدیک ابن قتیبہ کا شمار مقتدر علماء میں ہوتا ہے اور آپ اہل سنت میں سے ہیں، علم اور دین میں ثقہ مانے جاتے ہیں، علامہ سلفی فرماتے ہیں: ’’ابن قتیبہ ثقہ اور اہل سنت علماء میں سے تھے۔‘‘ اور علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ابن قتیبہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے علم اور دین میں ثقہ تھے، خطیب بغدادی نے بھی یہی بات کہی ہے۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ابن قتیبہ، امام احمد اوراسحاق کے مسلک کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور سنت کے مشہور مسالک کے حمایتیوں میں سے ہیں۔‘‘[2] ان اقوال کی روشنی میں سوچا جاسکتاہے کہ محققین اہل علم کے نزدیک جس آدمی کا یہ مقام ہو کیا اس کے بارے میں یہ تصور کیا جاسکتاہے کہ وہ ’’الإمامۃ والسیاسۃ‘‘ جیسی کتاب کا مولف ہوگا کہ جس نے تاریخ کو مسخ کردیا ہے اور صحابہ کرام پر تہمتیں لگائی ہیں۔[3] ڈاکٹر علی نفیع علیانی اپنی کتاب ’’عقیدۃ الإمام ابن قتیبۃ عن کتاب الإمامۃ والسیاسۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’کتاب ’’الإمامۃ والسیاسۃ‘‘ کو باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس کتاب کا مؤلف ایک حیثیت سے رافضی ہے، جس نے ابن قتیبہ کی تالیف کی کثرت اور اہل الحدیث کی تائید میں عوام الناس کے نزدیک آپ کی شہرت کو دیکھتے ہوئے اس کتاب کو آپ کی تالیف کے ضمن میں گھسیڑ دیا ہے یہ رافضی مغرب کا ہوسکتا ہے اس لیے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو مغرب میں نیک نامی میں شہرت حاصل تھی۔‘‘[4] ’’الإمامۃ والسیاسۃ‘‘ کے مؤلف کے رافضی ہونے کے کچھ اور بھی ترجیحا ت ہیں جو اس طرح ہیں: ٭ مؤلف علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے لکھتاہے کہ آپ نے مہاجرین سے کہا: اے مہاجرین کی جماعت اللہ سے خوف کھاؤ! اللہ سے ڈرو! عرب پر محمد کے اقتدار کو ان کے گھر سے اور خاندان سے باہر اپنے گھروں اور خاندانوں میں نہ جانے دو، اس کا جو اہل ہے، حق دار ہے اور اس کا جو مرتبہ ہے اسے پیچھے نہ دھکیلو، اے مہاجرین! اللہ کی قسم! ہم اہل بیت ہونے کی وجہ سے دوسروں سے اس کے زیادہ مستحق ہیں، اور تم سے زیادہ حق رکھتے ہیں،