کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 817
صلح کرائے گا۔‘‘
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں دونوں گروہوں کے لیے عظمت ثابت کی اور ان کے اسلام کی صحت کا حکم لگایا، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں سے کینہ کپٹ نکال دینے کا اللہ نے وعدہ کیا ہے۔ فرمایا:
وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ ﴿٤٧﴾ (الحجر:47)
’’اور ہم ان کے سینوں میں جو بھی کینہ ہے نکال دیں گے، بھائی بھائی بن کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔‘‘
بہرحال ان کی آپس کی لڑائیوں کے بارے میں بحث و مباحثہ سے بچنا اور اپنی زبان بند رکھنا ضروری ہے۔[1]
٭ نزاعات و اختلافات صحابہ کے بارے میں اہل سنت و جماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’صحابہ کرام کے آپس کے اختلافات اور لڑائیوں کے بارے میں وہ خاموش رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحابہ کی تنقیص ومذمت سے متعلق روایات میں خرد برد اور کمی زیادتی ہے اور اس سے متعلق جو صحیح روایات ہیں اس میں انھیں معذور سمجھا جائے، انھوں نے اجتہاد کیا تھا، جس میں صحیح نتیجہ پر پہنچے یا اجتہاد کیا اور غلطی ہوگئی۔‘‘[2]
٭ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان صحابہ میں جو لڑائیاں ہوئیں، ان میں بعض تو نادانستہ طور سے اچانک واقع ہوگئیں، جیسا کہ جنگ جمل میں ہوا اور بعض دانستہ طور سے ہوئیں، لیکن ان میں اجتہاد کا دخل تھا، جیسا کہ جنگ صفین اور اجتہاد غلط ہوسکتاہے، لیکن ایسا مجتہد معذور ہوگا اور غلطی کرنے پر بھی ایک اجر سے نوازا جائے گا، البتہ مجتہد مصیب کو دو اجر ملے گا۔‘‘[3]
٭ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’صحابہ کرام کی آپس کی لڑائیوں کو لے کر ان میں سے کسی کو بھی لعن طعن کرنے کی حرمت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے، اگرچہ یہ معلوم بھی ہو کہ ان میں کون حق پر تھا، اس لیے کہ انھوں نے اجتہاد کی بنا پر یہ لڑائیاں لڑی تھیں، بلکہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ انھیں ایک اجر ملے گا اور صحیح اجتہاد والے کو دوہرا اجر ملے گا۔‘‘[4]
خلاصہ یہ کہ شہادت عثمان کے بعد صحابہ کرام کے درمیان جو فتن رونما ہوئے ان میں بحث و مباحثہ کرنے سے اپنی زبان بند رکھنا واجب ہے اور ضروری ہے کہ ان پر دعائے رحمت کی جائے، ان کے فضائل و مناقب کی حفاظت خوبیوں کا اعتراف، محاسن کی نشر و اشاعت اور رضائے الٰہی کا اعلان کیا جائے۔[5]
[1] الشرح و الإبانۃ علی أصول السنۃ و الدیانۃ ص (268)۔
[2] صحیح البخاری/ الفتن ، حدیث نمبر (7109)۔