کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 816
آپس کی لڑائیوں کے بارے میں اپنی زبان کھولنے سے رک جائیں، کیونکہ وہ لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوئے، فضل و مرتبہ میں دیگر لوگوں پر سبقت لے گئے، اللہ نے انھیں بخش دیا، تمھیں ان کے لیے استغفار کرنے اور ان سے محبت کرکے اپنی قربت چاہنے کا حکم دیا گیا، یہ سب کچھ اپنے نبی کی زبان سے کہلوایا، حالانکہ اسے خوب معلوم تھا کہ ان سے کیا کچھ حرکات صادر ہوں گی اوریہ کہ یہ لوگ آپس میں لڑیں گے۔ دیگر تمام انسانوں پر انھیں فضیلت دی گئی کیونکہ دانستہ اور غیردانستہ غلطیاں ان سے معاف کردی گئی ہیں، ان کی جو آپس کی لڑائیاں ہوں وہ معاف ہیں۔[1] ٭ ابوبکر بن الطیب الباقلانی فرماتے ہیں کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ اصحاب رسول کے درمیان جو کچھ لڑائیاں ہوئیں ان پر ہم بحث و مباحثہ نہ کریں، سب پر رحمت الٰہی کی دعا کریں، سب کی ستائش کریں، ہم ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی رضا، امان، کامیابی اور جنتوں سے نوازے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا درست کیا، آپ کو دوہرا اجر ملے گا، دیگر صحابہ نے بھی جو کچھ کیا اپنے اجتہاد کی بنا پر کیا، اس کا انھیں ایک اجر ملے گا، انھیں فاسق یا بدعتی نہیں کہا جائے گا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿١٨﴾ (الفتح :18) ’’بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کر دی اورانھیں بدلہ میں ایک قریب فتح عطا فرمائی ۔‘‘ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِذَا اجْتَہَدَ الْحَاکِمُ فَأَصَابَ فَلَہٗ اَجْرَانِ وَ إِذَا اجْتَہَدَ فَأَخْطَأَ فَلَہٗ أَجْرٌ۔)) ’’جب حاکم اجتہاد کرے اور درست نتیجہ تک پہنچ جائے تو اسے دوہرا اجر ہے، اور جب اجتہاد کرے اور غلطی کرجائے تو اسے ایک اجر ہے۔‘‘ تو اس حدیث کی روشنی میں اگر اس دور کے حاکم کو اس کے اجتہاد پر دوہرا اجر مل سکتاہے تو ان ہستیوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جن سے اللہ نے اپنی رضا مندی کا اعلان کردیا اور وہ بھی اللہ سے راضی ہوگئے، ہماری اس بات کی تصدیق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے جو آپ نے حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا: ((اِنَّ ابْنِیْ ہٰذَا سَیِّدٌ وَ سَیُصْلِحُ اللّٰہُ بِہٖ فِئَتَیْنِ عَظَیِمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔))[2] ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ عنقریب اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں
[1] الجامع لأحکام القرآن (16/332)۔ [2] الجامع لأحکام القرآن (16/332)۔ [3] الإنصاف للباقلانی (69)۔ [4] مناقب الإمام أحمد لابن الجوزی (163)۔ [5] رسالۃ أبی زید القیروانی مع الثمر الداني ص (23)۔