کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 815
’’وہ ایسی لڑائی تھی جس میں اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اور ہم غائب، انھوں نے صورت حال کو جانا اور ہم ناواقف رہے، جب وہ متحد رہے تو ہم نے ان کی اتباع کی اور جب ان میں اختلاف ہوا تو ہم نے توقف اختیار کیا۔‘‘[1] حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام کو جن حالات کا سامنا تھا وہ اس کے بارے میں ہم سے زیادہ جانتے تھے، ہمیں ان سے متفق علیہ مسائل میں ان کی اتباع کرنا چاہیے، اور مختلف فیہ مسائل میں توقف، ان کے بارے میں ہمیں اپنی رائے نہیں قائم کرنا چاہیے، ہمیں یقین اورایمان ہے کہ انھوں نے اجتہاد کیا اور اللہ کی رضا کے متلاشی رہے، ان کے دین و ایمان پرہمیں قطعاً شک نہیں ہے۔[2] ٭ جعفر بن محمد الصادق رحمۃ اللہ علیہ سے اس سلسلہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: میرا جواب اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: قَالَ عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي فِي كِتَابٍ ۖ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى ﴿٥٢﴾ (طہ:52)[3] ’’کہا ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے، میرا رب نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے جب دریافت کیا گیا کہ علی اور معاویہ ( رضی اللہ عنہما ) کے درمیان جو کچھ ہوا اس سلسلہ میں آپ کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں ان کے بارے میں اچھا ہی سوچتا ہوں۔[4] ابراہیم بن آزر الفقیہ کہتے ہیں کہ میں احمد بن حنبل کے پاس موجود تھا، ایک آدمی نے آپ سے علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جو کچھ ہوا تھا اس کے بارے میں پوچھا: آپ اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے جواب نہیں دیا: کسی نے آپ سے کہا: اے ابوعبداللہ! وہ بنوہاشم کا ایک فرد ہے؟ پھر آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا پڑھو: تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٤١﴾ (البقرۃ : 141) ’’یہ ایک امت تھی جو گزر چکی، اس کے لیے وہ ہے جو اس نے کمایا اور تمھارے لیے وہ جو تم نے کمایا اور تم سے اس کے بارے میں نہ پوچھا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ ٭ علامہ ابن ابی زید القیروانی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں فرماتے ہیں: اصحاب رسول میں سے اگر کسی کا ذکر ہو تو ذکر خیر ہو، ان کی آپس کی لڑائیوں کے بارے میں خاموش رہا جائے اور وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے لیے بچاؤ کا سب سے بہتر راستہ نکالا جائے، اور ان کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔[5] ٭ ابوعبداللہ بن بطہ اہل سنت و جماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس کے بعد ہم اصحاب رسول کی
[1] الاعتقاد/ البیہقی ص (198) فتح الباری (13/66)۔ [2] صحیح مسلم (2/746) حدیث کا لفظ اس طرح ہے: ’’تکون فی أمتی فرقتان۔‘‘ [3] الإنصاف/ الباقلانی ص (69) الطبقات (5/394)۔ [4] مناقب الشافعی ص (136)۔