کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 814
صلح کرادے۔‘‘ پس اس حدیث میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت موجود ہے کہ اہل شام اور اہل عراق دونوں گروہ مسلمان ہیں، اسی طرح اس میں ان خوارج کی صراحت سے تردید ہے جو علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما نیز ان دونوں کے ساتھیوں کی تکفیر کرتے ہیں کیونکہ اس میں سب کو مسلمان کہا گیا ہے۔ چنانچہ سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ’’دو مسلمان گروہ‘‘ کا جملہ ہمیں بہت ہی پسند آتاہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’وہ جملہ انھیں اس لیے بہت پسند آیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں کو مسلمان قرار دیا، نیز اس حدیث میں پیشین گوئی تھی کہ علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حسن بن علی رضی اللہ عنہما خلافت کو معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں میں سونپ دیں گے۔[1] مذکورہ تمام احادیث میں اہل عراق کی طرف اشارہ ہے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور اہل شام کی طرف اشارہ ہے جو معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور ان سب کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں شمار کیا ہے،[2] اسی طرح ان سب کو حق کا متلاشی قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ لوگ ایمان پر باقی ہیں، آپس کی لڑائی کی وجہ سے ایمان سے خارج نہیں ہوئے، وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ’’اور اگر ایمان والوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو۔‘‘ کے عموم میں داخل ہیں اور میں بتا چکا ہوں کہ آیت کریمہ کا عموم و مدلول تمام لوگوں کو شامل ہے، لہٰذا ان کی تکفیر و تفسیق نہ کی جائے، انھوں نے اجتہاد و تاویل کی تھی، چنانچہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ صحابہ کرام کی آپس کی لڑائیوں کے بارے میں فرقہ ناجیہ کا عقیدہ رکھے، یعنی ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے اور اگر زبان کھلے تو ان کے مقام ومنصب کو آنچ نہ آئے۔اس چنندہ اور پاکیزہ جماعت سے متعلق عقائد کے بارے میں اہل سنت و جماعت کی کتب بھری پڑی ہیں۔ اہل سنت وجماعت کے سرخیلوں نے ان جنگوں سے متعلق اپنے موقف کو نہایت حسین انداز میں بیان کیا ہے مثلاً: ٭ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سے صحابہ کرام کی آپسی لڑائیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ ایسا خون تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھوں کو پاک رکھا، پھر کیوں نہ میں اس سے اپنی زبان کو پاک رکھوں، اصحاب رسول کی مثال آنکھوں کی سی ہے اورآنکھوں کا علاج اسے نہ چھونا ہے۔[3] امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ عمر بن عبدالعزیز کے قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ بڑی عمدہ اور قابل ستائش بات ہے، اس لیے کہ غیر متعلق چیز پر انسان کی خاموشی اس کے حق میں بھلی ہے۔[4] ٭ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے صحابہ کی آپس کی لڑائیوں کے بارے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا:
[1] العواصم من القواصم ص (169، 170) أحکام القرآن (4/1717)۔ [2] صحیح مسلم (2/745)۔ [3] صحیح البخاری مع الفتح (12/318)۔ [4] صحیح البخاری/ الفتن، حدیث نمبر (7109)۔