کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 813
صلح مصالحت کی راہ نکالیں، اس لیے کہ سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، یہ لڑائی جھگڑا انھیں ایمان سے خارج نہیں کرتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مومن کہا اور صلح جوئی کا حکم دیا، چنانچہ عام مسلمانوں کے درمیان ہونے والی لڑائیاں اگر انھیں ایمان سے خارج نہیں کرتیں تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنھوں نے جنگ جمل اور اس کے بعد کی دیگر لڑائیوں میں شرکت کی وہ اس آیت میں مذکورہ ایمان کے حکم میں بدرجہ اولیٰ شامل ہوں گے، وہ اپنے رب کے یہاں حقیقی ایمان والے مومن ہیں، ان کی آپس کی لڑائیاں ان کے ایمان پر کسی حالت میں بھی اثر انداز ہونے والی نہیں ہیں، کیونکہ وہ اجتہاد کا نتیجہ تھیں۔[1]
2۔ سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((تَمْرُقُ مَارِقَۃٌ عِنْدَ فُرْقَۃٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ تَقْتُلُہُمْ أَوْلٰی الطَّائِفَتَیْنِ بِالْحَقِّ))[2]
’’ایک فرقہ جدا ہوجائے گا جب مسلمانوں میں پھوٹ ہوگی اس کے دو نوں گروہوں میں سے جو حق کے زیادہ قریب ہوگا، قتل کرے گا۔‘‘
مذکورہ حدیث میں جس پھوٹ اور انتشار کی طرف اشارہ ہے وہ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما کا اختلاف ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتھ دونوں گروہوں کو مسلمان کہا ہے اور بتایا ہے کہ دونوں ہی حق سے ملے ہوئے ہوں گے، نیز یہ حدیث نبوت کا ایک معجزہ ہے کیونکہ بعد میں بالکل اسی حدیث کے موافق حالات ہوئے، نیز اس حدیث میں دونوں گروہوں یعنی اہل عراق اور اہل شام پر مسلمان ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔ حقیقتِ واقعہ رافضیوں اور سرکش جہلاء کے عقیدہ و منہج کے خلاف ہے جو کہ اہل شام کی تکفیر کرتے ہیں۔
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی حق سے زیادہ قریب تھے اور یہی اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کا اجتہاد درست تھا، اور ان کو دوہرا اجر ملے گا، اگرچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی اجتہاد کیا تھا اور غلطی کر گئے تھے، تاہم آپ عند اللہ ان شاء اللہ ماجور ہوں گے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((إِذَا اجْتَہَدَ الْحَاکِمُ فَأَصَابَ فَلَہٗ أَجْرَانِ وَ إِذَا اجْتَہَدَ فَأَخْطَأَ فَلَہٗ أَجْرٗ۔))[3]
’’جس حاکم نے اجتہاد کیا اور صحیح نتیجہ پر پہنچ گیا تو اسے دوہرا اجر ہے، اور اگر اجتہاد کیا اور غلطی کر گیا تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔‘‘
3۔ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے ، اسی دوران حسن ( رضی اللہ عنہ ) آ گئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِبْنِیْ ہٰذَا سَیِّدٌ وَ لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُّصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔))[4]
’’میرا یہ بیٹا سردار ہے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان
[1] الجہاد و القتال فی السیاسۃ و الشرعیۃ (3/1665)۔
[2] عقیدۃ أہل السنۃ و الجماعۃ فی الصحابۃ الکرام (2/727) تنزیۃ خال المؤمنین معاویہ بن أبی سفیان من الظلم و الفسق فی مطالبتہ بدم أمیر المومنین عثمان ص (41)۔