کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 811
گروہوں میں جنگ بندی کے لیے پرخلوص اور مفید دباؤ بنائیں، اور اسلام کی شرعی تحکیم کی پناہ ڈھونڈیں ، ہر فریق مسئلہ کے حل کے لیے اپنا اپنا منتخب نمائندہ بطور حکم بھیجے اور مندرجہ ذیل امور کی رعایت کی جائے: 1۔ مسائل کے حل کے لیے قرار داد منظور کرنے میں حکمین کے اختیارات کی تحدید ہو۔ 2۔ مسائل کی تحلیل اورقراردادوں کی منطور کے لیے اسلامی شریعت کے مصادر ہی اساس ہوں۔ 3۔ متنازع فریقین اور تمام سربراہان ممالک سے یہ عہد وپیمان لیا جائے کہ اس پیچیدہ اختلاف کے تصفیہ کے لیے حکمین جو قرار داد اور شرعی حل پیش کریں گے انھیں اسلامی حکم کے مطابق نافذ کرنا واجب ہو گا، اس کی مخالفت کرنے یا مخالفت کرنے والوں پر خاموش رہنے سے شرعاً گناہ لازم ہوگا۔ 4۔ جب حکمین اپنی متفق علیہ قرار داد و فیصلہ سنا دیں اور بروقت فریقین رضا مند ہوں تو یہیں پر معاملہ ختم سمجھا جائے گویا اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو قتال و جدال سے روک دیا ہے۔ 5۔ اگر حکمین کے فیصلہ کو فریقین یا دونوں میں سے کوئی ایک ماننے سے انکار کردے تو منکر فریق باغی کہلائے گا، خواہ انکار دونوں کی طرف سے ہو یا ایک کی طرف سے اور ایسی صورت میں اسلامی ممالک میں پھیلی ہوئی مسلم فوجی قوت پر لازم ہوگا کہ حکمین کی عسکری قرار دادوں پر عمل کریں تاکہ طاقت کے ذریعہ سے مناسب انداز میں اس طرح معاملہ کا تصفیہ ہوجائے کہ اختلافات کی موجودہ صورت حال سے حالات ابتر نہ ہوں۔ 6۔ گزشتہ تفصیلات کی روشنی میں معاملہ کے تصفیہ کے لیے حکمین کو متفقہ طور سے یہ اختیار حاصل ہو کہ مسلح فوجی قوت کو اسلامی ممالک کے مختلف حصوں میں متحرک کرنے کے لیے وہ قرار دادیں منظور کر سکتے ہیں۔[1] امید کی جاتی ہے کہ مختلف مسلم ممالک کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے تحکیم کا مذکورہ طریقہ بیرونی ممالک کی خارجی قوتوں کی مداخلت روکنے کا ضامن بن سکے، جو کہ مسلمانوں کے اندرونی معاملات واختلافات میں اس دلیل کے سہارے مداخلت کرتی ہیں کہ فریقین کے کچھ لوگوں نے ہمیں مداخلت کی دعوت دی ہے اور پھر یہ قوتیں اس موقع کا مناسب فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں ہی کے خلاف سازش تیار کرتی ہیں، یعنی اختلافات کو مزید الجھا کر پھر ان کا ایسا حل پیش کرتی ہیں جو انھیں کے مفاد میں ہو اور مسلم مملک جن اختلافات کی نحوستوں کا سامنا کر رہے تھے اس حل کے بعدان سے بدتر مشکلات اور نحوستوں کا سامنا کریں۔ (جیسا کہ آج کل عراق، لیبیا، شام اور افغانستان) آپ کا کیا خیال ہے کیا خارجی قوتوں کے حل نکالنے کے بعدان کی پیدا کردہ پریشانیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے نہیں ایسی بات ہرگز نہیں! بلکہ ما بعد کی یہ پریشانیاں بھی ان سازشوں کا ایک حصہ ہیں جنھیں خارجی قوتیں عام کرنے کے لیے نحوست زدہ حل کو پیش کرتی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ وضاحت کی روشنی میں ’’تحکیم‘‘ کا راستہ اپنانے سے ایسی خارجی قوتوں کی مداخلت کا راستہ بند ہوسکتاہے، جو مسلمانوں کی صفوں میں فساد کی آگ بھڑکانا چاہتی ہیں، یہ میرا خود ساختہ نظریہ نہیں ہے بلکہ شریعت کی الزامی نوعیت کی روشنی میں مسئلہ کے تصفیہ کے لیے طریقہ
[1] بلال بن ابوبردہ عامر بن ابوموسیٰ اشعری، تہذیب تاریخ دمشق (3/321) [2] ذو الرمۃ کا نام غیلان بن عقبہ ہے۔ 177ھ میں وفات ہوئی، سیر أعلام النبلاء (5/267) [3] دیوان ذی الرمۃ ص (361، 363) بحوالۃ خلافۃ علی ص (273)۔ [4] خلافۃ علی / عبدالحمید ص (272)۔ [5] المسند (1/168) علامہ احمد شاکر نے کہا کہ اس کی سند صحیح ہے (3/26)