کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 809
قاتلین عثمان کے موضوع کو لے کر فقط آپ کو علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اور شام میں ان کے احکامات کی تنفیذ سے انکار تھا، ملکی قوانین کے تئیں نہیں بلکہ احوال و ظروف کی موافقت اور عوامی تائید و اطاعت کی وجہ سے شام پر آپ کی بالادستی قائم تھی، آپ وہاں تقریباً بیس سال تک بحیثیت گورنر کام کرتے رہے تھے۔[1] ابن دحیہ کلبی لکھتے ہیں: ابوبکر محمد بن الخطیب الاشعری الباقلانی نے ائمہ کرام کے مناقب میں فرمایا ہے کہ حکمین کبھی اس بات پر متفق نہ ہوئے کہ علی بن ابی طالب کو خلافت سے معزول کردیا جائے اور اگر بفرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ وہ دونوں اس پر متفق ہوگئے تھے تو بھی آپ منصب خلافت پر بحیثیت خلیفہ باقی رہتے، یہاں تک کہ حسب معاہدہ قرآن و سنت جن پر سب کا اتفاق تھا دونوں یا ان میں کسی ایک کی روشنی میں آپ کی معزولی کا حکم ثابت ہوجاتا، یا وہ دونوں معزولی کے لیے ثبوت میں قرآن و سنت سے کوئی دلیل پیش کرتے، اس لیے کہ علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے منصوص تحریر میں حکمین کے لیے لازمی شرط تھی کہ وہ دونوں کتاب اللہ کو شروع سے آخر تک فیصل بنائیں گے، اس سے تجاوز نہ کریں گے اور نہ انحراف، نہ نفس پرستی کی طرف مائل ہوں گے ، نہ کسی کے حق میں مداہنت سے کام لیں گے۔ پھر آپ نے ان دونوں سے پختہ ترین عہد و میثاق لیا تھا، اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اگر وہ دونوں فیصلہ کرنے میں کتاب اللہ سے ہٹ جاتے ہیں تو ان کا فیصلہ قابل قبول نہ ہوگا۔ بہرحال جب معاملہ کتاب و سنت پر موقوف ہوا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں آپ کی عظمت کا اعتراف اور امامت کا ثبوت ہے، آپ کی صداقت و عدالت، پیشوائی و اسلام کی طرف سبقت، مشرکین کے خلاف عظیم مجاہدانہ کردار اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت پر کتاب و سنت گواہ ہے اور علمی مہارت، فیصلوں میں اصابت رائے، کمال بردباری، استحقاق خلافت اور خلافت کی ذمہ داریوں کو نبھانے کی اہلیت میں آپ کے امتیازی مقام کو نمایاں کرتے ہیں۔[2] حکمین کی اجتماع گاہ: معاہدہ تحکیم کی قرار دادوں کے مطابق کسی رکاوٹ کے بغیر رمضان 37ھ میں دونوں حکم کو عراق اور شام کے درمیانی مقام پر اکٹھا ہونا طے پایا تھا۔ قابل اعتبار روایات میں اس مقام کو ’’دومۃ الجندل‘‘[3]اور ان سے کمتر درجہ کی روایات میں اسے ’’اذرح‘‘[4]بتایا گیا ہے، ممکن ہے کہ دونوں جگہ میں بہت قربت کی وجہ سے روایات میں یہ اختلاف ہو جیسا کہ خلیفہ بن خیاط[5] کہتے ہیں: اس جگہ کا نام ’’اذرح‘‘ بتایا جاتاہے جو کہ دومۃ الجندل سے قریب ہی ہے، یہ اجتماع بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی مقررہ مدت میں منعقد ہوا۔[6] بہرحال حکمین کی اجتماع گاہ دومۃ الجندل ہی تھی، البتہ یہ بات فائدہ سے خالی نہ ہوگی کہ یاقوت حموی پورے
[1] سنن البیہقی (8/144)۔ [2] مرویات أبی مخنف ص (412)۔ [3] صحیح البخاری / المغازی، باب غزوہ الخندق و ہی الأحزاب (4108)۔ [4] فتح الباری (7/466)۔ [5] مرویات أبی مخنف ۔