کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 808
اس معنی کی اور بھی دوسری احادیث موجود ہیں۔[1] لہٰذا یہ ناممکن اور محال ہے کہ صحابہ کرام ان روایات کی مخالفت کریں گے۔[2]
صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، میں نے کہا: تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا، مجھے اس میں کچھ نہیں ملا، انھوں نے کہا: تم جاؤ لوگوں سے ملو وہ تمھارا انتظار کر رہے ہیں، ایسا نہ ہو کہ تم نہ جاؤ اور لوگوں میں پھوٹ پڑ جائے۔ غرض ام المومنین نے ان کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ وہ گئے اور جب مجلس منتشر ہونے لگی تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا اگر کسی کو اس معاملہ (خلافت) کے بارے میں کچھ کہنا ہے تو وہ اپنا سراٹھائے، ہم اس سے اور اس کے باپ سے زیادہ خلافت کا حق رکھتے ہیں۔ حبیب بن ابی مسلمہ سے پوچھا: تم ان کی تقریر کا جواب کیوں نہیں دیا، عبداللہ نے کہا: میں نے اپنی لنگی کھولی (جواب دینے کو تیار ہوا) جی میں آیا، یوں کہوں: تم سے زیادہ خلافت کا حق دار وہ ہے جو تم سے اور تمھارے باپ سے دین کے لیے لڑتا رہا، پھر میں ڈرا کہ کہیں ایسا کہنے سے جماعت میں پھوٹ نہ پڑ جائے اور خون ریزی ہو، اور لوگ میرا مطلب کچھ اور سمجھ لیں، اس لیے میں نے بہشت میں اللہ کی تیار کردہ نعمتوں کو یاد کیا، (اور چپ رہا) حبیب بن ابی مسلمہ نے کہا: (اچھا ہوا( تم اچھے رہے اور آفت میں نہیں پڑے۔[3]
اس حدیث سے ذہن اس بات کی طرف جاسکتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ پر بیعت خلافت تمام ہوئی تھی، حالانکہ اس روایت میں اس کی وضاحت نہیں ہے، اسی لیے بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ اس مجلس کی بات ہے جس میں حسن بن علی( رضی اللہ عنہما ) نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے مصالحت کرلی تھی، جب کہ ابن الجوزی کا خیال ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ خطبہ اس زمانہ کا ہے جب وہ اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد بنانا چاہتے تھے اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ تحکیم کے وقت کی بات ہے۔[4] لیکن اوّل الذکر دو اقوال میں سے کسی ایک قول کے حق میں نص کی دلالت قوی ہے، کیونکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا کہ میں ڈرا کہیں ایسا کہنے سے جماعت میں پھوٹ نہ پڑ جائے اور خون ریزی ہو۔ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت وہ سارے مسلمان معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر متفق ہوچکے تھے، یہ بات تحکیم کے زمانہ کی نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ اختلاف و انتشار کے دن تھے، اتحاد و یگانگت کے نہیں۔[5]
قراردادِ تحکیم کی حقیقت:
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس اختلافی موضوع کو حکمین نے امت یا اہل شوریٰ کے حوالہ کیا تھا وہ قاتلین عثمان سے متعلق علی اور معاویہ کا اختلاف تھا، معاویہ رضی اللہ عنہ نہ خلافت کے دعوے دار تھے اور نہ استحقاق علی کے منکر،
[1] مرویات تاریخ أبی مخنف ص (411)۔
[2] آپ ثقہ ہیں، اپنے وقت کے امام دین ہیں، دیکھئے: تقریب التہذیب۔
[3] تہذیب التہذیب (4/60)۔
[4] تاریخ الطبری (6/76)۔
[5] تاریخ الطبری (6/76)۔
[6] البدایۃ والنہایۃ (8/16)۔
[7] مجموع الفتاوٰی (35/73)۔
[8] صحیح مسلم (3/1480)۔