کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 807
معاہدہ تحکیم کے وقت ان میں سے صرف سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ باحیات تھے، انہوں نے فتنہ سے الگ اور ولایت و امارت سے معذرت کردی تھی، تو سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد بحیثیت خلیفہ ان چھ ممبران میں سب سے افضل باقی بچے تھے، لہٰذا آپ کو چھوڑ کر خلافت کسی دوسرے کو کیوں کر سونپی جاسکتی ہے۔[1] روایات کی صراحت کہ اہل شام نے ’’تحکیم‘‘ کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی: اس مقام پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر اہل شام کی بیعت کے لیے وجہ جواز کیا تھی؟ اگر یہ کہا جائے کہ تحکیم وجہ جواز تھی تو درست نہیں ہے کیونکہ حکمین کسی فیصلہ پر متفق نہ ہوسکے، علاوہ ازیں نہ کوئی وجہ جواز تھی اور نہ سمجھ میں آتی ہے۔ ہاں! ابن عساکر نے ثقہ راویوں پر مشتمل سند سعید بن عبدالعزیز تنوخی[2] سے روایت کی ہے جو کہ شام کے بارے میں سب سے زیادہ معلومات رکھنے والے ہیں۔[3] ان کا کہنا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ عراق میں امیر المومنین کہے جاتے تھے اور معاویہ شام میں امیر کہے جاتے تھے اور جب علی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی تومعاویہ رضی اللہ عنہ شام میں ’’امیرالمومنین‘‘ کہے جانے لگے۔[4] مذکورہ عبارت صریح الفاظ میں بتاتی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہی معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت خلافت ہوئی۔ طبری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی خیال ہے، چنانچہ وہ 40ھ کے آخری حوادث کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ اسی سال میں ’’ایلیائ‘‘ (بیت المقدس) میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوئی۔[5] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے طبری کے اس قول کی وضاحت میں لکھا ہے کہ جب علی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی تو اہل شام نے معاویہ رضی اللہ عنہ پر ’’مومنوں کی امارت‘‘ کی بیعت کرلی، اس لیے کہ ان کے خیال میں اب کوئی آپ کا مخالف نہیں بچا تھا۔[6]اہل شام کو خوب معلوم تھا کہ مسئلہ خلافت میں معاویہ ، علی رضی اللہ عنہما کے برابر کبھی نہیں ہوسکتے، اور علی رضی اللہ عنہ کے استخلاف کا امکان ہوتے ہوئے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے خلیفہ بننا جائز بھی نہیں ہے، اس لیے کہ علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت، اسلام کی طرف سبقت، علم، دین داری، شجاعت اور دیگر مناقب و فضائل اہل شام کے نزدیک ایسے ہی معلوم و مشہور تھے جیسا کہ ان کے دیگر برادران یعنی ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے فضائل۔[7] مزید برآں ایک خلیفہ کے ہوتے ہوئے دوسرے کے لیے بیعت خلافت سے روکنے والی احادیث موجود تھیں، جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِذَا بُوْیِعَ خَلِیْفَتَیْنِ فَاقْتُلُوا الْآخِرَ مِنْہُمَا۔))[8] ’’جب دو خلفاء کے لیے بیعت لی جائے تو ان میں بعد والے کو قتل کردو۔‘‘
[1] غیاث الأمم ص (128) مرویات أبی مخنف ص (410)۔ [2] الفصل فی الملل و الاہواء و النحل (4/238)۔