کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 806
مخالف بھی اس کا اعتراف کرتے رہے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا سابقہ قول بھی اس بات پر دلالت کرتاہے کہ جب امام (خلیفہ) کے اندرامامت کی تمام شرائط پوری ہوں اور پھر اس پر امامت کی بیعت کرنے والے اسے امامت سے معزول کرنا چاہیں توباتفاق ائمہ ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے، اس لیے کہ امام کی بیعت کرنے کے بعد اس کی امامت کو تسلیم کرنا لازم ہے، بغیر کسی جائز سبب کے اس کی امامت سے ہاتھ کھینچنا جائز نہیں ہے کیونکہ اگر بیعت کی پابندی قطعی و واجبی نہ ہوگی تو نہ امامت منظم طریقہ پر چل سکتی ہے اور نہ ہی اس کا مقصد حاصل ہوسکتا ہے، اسی طرح اگر رعایا کو یہ اختیار حاصل رہے کہ وہ امام وقت سے جب چاہے دست کش ہوجائے اور دوسرے کو امامت کے لیے منتخب کرلے تو پھر منصب امامت بے معنی، اس کے اختیارات غیر مستحکم اور خود امام کی اطاعت غیریقینی ہوکر رہ جائے گی۔[1]
لہٰذا جس انداز میں مذکورہ روایات احوال و واقعات بیان کر رہی ہیں کہ جو لوگ علی رضی اللہ عنہ کی خلافت سے راضی نہ تھے انھوں نے آپ کو خلافت سے معزول کردیا، یہ بات حقیقت کے بالکل خلاف ہے، کسی امام کی امامت کو وہی لوگ ختم کرسکتے ہیں جو اس کو منعقد کرنے کے اہل ہوتے ہیں، یعنی اہل حل و عقد بشرطیکہ امام منصب امامت کی شرائط میں خلل پیدا کرے، بنابریں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا علی رضی اللہ عنہ نے بحیثیت امام و خلیفہ راشد ایسا کچھ کیا تھا؟ اور کیا اہل حل و عقد انھیں خلافت سے معزول کرنے پر متفق ہوئے تھے کہ کہا جائے کہ حکمین اس بات پر متفق ہوگئے؟ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ جب تک آپ زندہ رہے کبھی آپ سے کوئی ایسی حرکت نہ ہوئی جو آپ کی بیعت توڑنے اور خلافت سے معزولی کو واجب کرتی ہو، آپ ہمیشہ ایک عادل،محنتی، نیکوکار، متقی اور صاحب خیر کی حیثیت سے زندہ رہے۔[2]
’’تحکیم‘‘ کا زمانہ، فتنہ کا زمانہ تھا:
جن حالات میں معاہدۂ تحکیم روبہ عمل آیا تھا، وہ نہایت پرفتن حالات تھے، اور اگرچہ مسلمانوں کا اپنا خلیفہ موجود تھا پھر بھی وہ بہت اضطراب اور بے یقینی کے دور سے گزر رہے تھے، بھلا ایسے وقت میں خلیفہ کی معزولی سے ان کے حالات کیوں کر سدھر سکتے تھے، بلاشبہ حالات سدھرنے کی بجائے اور ابتر ہوجاتے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس سے کہیں زیادہ وسیع النظر، ہوشیار اور دور اندیش تھے کہ ان حالات میں ایسی کوئی پیش رفت کرتے، لہٰذا یہ رائے نہ عقلاً درست ہے اور نہ نقلاً۔
سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خلافت کو ممبران شوریٰ تک محدود کردیا تھا:
ان ممبران شوریٰ کی تعداد چھ (6) تھی اور مہاجرین و انصار سب اس پر راضی تھے، تمام صحابہ کی یہ رضامندی گویا اس بات کی اجازت تھی کہ جب تک ان ممبران شوریٰ کا ایک فرد بھی زندہ ہوگا خلافت انھیں میں محدود ہوگی اور
[1] سیر أعلام النبلاء (3/140)۔
[2] مرویات أبی مخنف ص (409)۔
[3] الفصل فی الملل والنحل (4/160)۔
[4] تحقیق مواقف الصحابۃ فی الفتنۃ (2/225)۔
[5] الأحکام السلطانیۃ / الماوردی، الأحکام السلطانیۃ / أبویعلٰی ص (20) غیاث الأمم (79) ۔