کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 805
دیا: نہیں، ہرگز نہیں، مجھے بالکل اعتراف ہے کہ وہ مجھ سے افضل اور مجھ سے زیادہ خلافت کے مستحق ہیں، لیکن کیا تمھیں نہیں معلوم کہ عثمان مظلوم قتل کردیے گئے اور میں ان کا عم زاد بھائی اوران کا ولی ہوں، ان کے خون کے بدلہ کا طالب ہوں؟ آپ لوگ علی کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ قاتلین عثمان کو ہمارے حوالہ کردیں، میں ان کی اطاعت قبول کرتاہوں، چنانچہ وہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اس موضوع پر گفتگو کی، لیکن آپ نے انھیں حوالہ نہ کیا،[1] بس معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان یہی بنیادی اختلاف تھا، اور ’’معاہدہ تحکیم‘‘ اس متنازع معاملہ کی گھتیاں سلجھانے کے لیے روبہ عمل لایا گیا تھا، نہ کہ کسی نئے خلیفہ کو منتخب کرنے یا موجودہ خلیفہ کو معزول کرنے کے لیے۔[2] حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ ا س سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس لیے لڑائی کی کہ انھوں نے پورے شام میں آپ کے احکامات کی تنفیذ نہیں کی، کیونکہ آپ امام وقت تھے، جس کی اطاعت واجب تھی، معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت اور ان کے استحقاق خلافت کا کبھی بھی انکار نہ کیا، بس آپ کا اجتہاد یہ تھا کہ قاتلین عثمان سے قصاص لینا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت پر مقدم ہے اورآپ نے اولاد عثمان اور اولاد حکم بن ابوعاص کے بالمقابل خود کو دم عثمان کے قصاص کے مطالبہ اور ان کے حق میں آواز اٹھانے کو زیادہ حق دار سمجھا، کیونکہ آپ کو عثمان سے نسبی قرابت داری تھی اور مطالبہ منوانے کی طاقت بھی، آپ اپنے اس موقف میں حق بجانب بھی تھے، البتہ غلطی صرف اتنی ہوئی کہ اسے بیعت پر مقدم کردیا۔[3]
سیّدنا علی و معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلافات کی مذکورہ تصویر کشی حقیقی تصویر ہے اس سے تحکیم سے متعلق حکمین کے فیصلہ کے سلسلہ میں مذکورہ روایات کی غلطی بالکل واضح ہوتی ہے کیونکہ علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلافات کو رفع کرنے کے لیے جو معاملہ حکمین کے سپرد کیا گیا تھا، وہ استحقاق خلافت کے بارے میں نہ تھا، بلکہ قاتلین عثمان پر قصاص کی تنفیذ کا مسئلہ لے کر یہ اختلاف پیدا ہوا تھا، اس کا خلافت سے کوئی تعلق نہ تھا، پس مروجہ روایات کے مطابق اگر حکمین نے اس بنیادی معاملہ سے قطع نظر کرکے خلافت کے بارے میں قرار داد منظور کی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انھوں نے اختلافی موضوع کا کوئی حل نہیں نکالا اور نہ ہی جو موضوع پر دعویٰ دائرکیا گیا تھا اس کی انھوں نے چھان بین کی، جب کہ اسی مقصد کے لیے انھیں حکم بنایا گیا تھا، یہ ایسی بات ہے جو بہرحال ناممکن ہے۔[4]
خلیفہ کے لیے مطلوبہ شرائط:
خلیفہ میں عدالت، علم، اصابت رائے جس میں رعایا کی سیاست، اور مفاد مصالح کی تدبیر مضمر ہو، نیز قریشی ہونا ضروری ہے۔[5] جب علی رضی اللہ عنہ میں یہ تمام شرائط موجود تھیں تو کیا آپ کی بیعت خلافت منعقد ہوئی تھی یا نہیں؟ اگر منعقد ہوئی اور بلاشبہ منعقد ہوئی تھی کیونکہ اہل حل و عقد مہاجرین و انصار نے آپ سے بیعت کی اورآپ کے فریق
[1] مرویات أبی مخنف فی تاریخ الطبری ص (408)۔
[2] التاریخ الکبیر (5/398) یہ روایت صاف بتاتی ہے کہ معاملہ خلیفہ کے نصب اور معزول کرنے کا نہیں تھا یہ اختیار حکمین کو دیا ہی نہیں گیا تھا اصل مسئلہ خون عثمان سے پیدا شدہ اختلافات و جنگ کو ختم کرنے کا تھا۔ اس کے لیے حکمین نے ان شخصیات کی نشان دہی کی تھی جو اس فتنہ سے دور تھے۔ (مترجم)
[3] العواصم من القواصم ص (178، 180)۔
[4] فتح الباری (3/86)۔