کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 804
ناممکن ہے کہ اس واقعہ کی اتنی بڑی اہمیت اور اس قدر شدید ضرورت کے باوجود تمام علماء متفقہ طور سے اسے نظر انداز کردیں۔[1] ایک صحیح روایت جو مذکورہ تمام روایات کی مطلقاً تردید کرتی ہے: امام بخاری نے اپنی تاریخ میں مختصراً ثقہ راویوں کی سند سے اور ابن عساکر نے معلول سند سے حصین بن المنذر سے روایت کی ہے کہ معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) نے ان کو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس یہ کہہ کر یہ بھیجا: جاؤ اوران سے کہو کہ میں نے عمرو کی طرف سے کچھ ایسی باتیں سنی ہیں جو مجھے ناپسند ہیں، لہٰذا ان سے پوچھو کہ وہ اور ابوموسیٰ جس بات کے لیے جمع ہوئے تھے اس کے بارے میں ان دونوں نے کیا کیا؟ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ یہ لوگوں کی اپنی باتیں ہیں، یقینا ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ جب میں اور ابوموسیٰ اشعری اکٹھے ہوئے تو میں نے ابوموسیٰ اشعری سے کہا: اس معاملہ میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو انھوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ معاملہ ان لوگوں کے حوالہ کردیا جائے جن کی زندگی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے راضی تھے، تو میں نے کہا: مجھے اور معاویہ کو آپ کہاں رکھیں گے؟ انھوں نے فرمایا: اگر آپ دونوں سے مدد طلب کی جاتی ہے تو تمھیں مدد کرنے کا حق ہے اور اگر آپ سے بے نیازی اختیار کی جاتی ہے تو ممکن ہے کہ اللہ کا حکم یہی ہو۔[2] بہرحال حکمین کے درمیان نہ کوئی سازش تھی نہ کوئی رنجش، بلکہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ورع و تقویٰ اور محاسبۂ نفس کے معترف تھے، ان کے بارے میں آپ ہی سے روایات ثابت ہیں کہ یہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی سیرت کو آنکھوں کے سامنے رکھتے تھے، اوران دونوں کی وفات کے بعد کے حوادث سے بہت گھبراتے تھے، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ سے عمرو بن عاص نے فرمایا: اگر ابوبکر و عمر یہ مال چھوڑدیتے ہیں حالانکہ یہ ان کے لیے حلال تھا، تو یہ ان کا دھوکا یا غلطی ہوتی، یا نہ سمجھی ہوتی، جب کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ نہ انھوں نے دھوکا کھایا نہ غلطی کی اور نہ ہی حماقت کی، یہ ہمارا ہی وہم اور ہماری ہی کمزوری ہے۔[3] جناب معاویہ کو علی رضی اللہ عنہما کی افضلیت اور ان کے استحقاق خلافت کا اعتراف تھا: چنانچہ جب تک علی رضی اللہ عنہ باحیات رہے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے کبھی اپنے لیے خلافت کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ اس کے لیے جھگڑا کیا، یحییٰ بن سلیمان جعفی بسند ’’جید‘‘[4]ابومسلم خولانی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ خلافت کے معاملہ میں علی ( رضی اللہ عنہ ) سے جھگڑتے ہیں، کیا آپ ان کی طرح ہیں؟ انھوں نے جواب
[1] تاریخ دمشق (16/53)۔ [2] تحقیق مواقف الصحابۃ (2/223)۔ [3] مرویات أبی مخنف ص (407)۔ [4] التاریخ الکبیر (4/2/267) الجرح والتعدیل (9/138)۔ [5] التاریخ / الدارمی ص (238) تحقیق مواقف الصحابۃ (2/223)۔ [6] الضعفاء و المتروکون ص (253)۔ [7] مرویات أبی مخنف فی تاریخ الطبری ص (408)۔