کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 803
یہ عمرو بن عاص کی ایک سازش تھی، پھر انھوں نے آپس میں صلح کرلی اوریہ معاہدہ طے پایا کہ شروع سال میں ’’اذرح‘‘ میں سب اکٹھا ہوں گے، جو دو حکم مقرر ہوں گے وہ لوگوں کے معاملات دیکھیں گے اور لوگ ان کے فیصلہ سے راضی ہوں گے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری کو اور معاویہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو اپنی اپنی طرف سے فیصل مقرر کیا اور لوگ یہیں سے اپنی اپنی جگہوں پر واپس چلے گئے، علی رضی اللہ عنہ کوفہ لوٹے توآپ کے خلاف اختلاف اور ہنگامہ بپا ہوگیا، آپ کے ساتھیوں نے آپ کی مخالفت شروع کردی، حتی کہ کچھ لوگ بغاوت پر اترگئے اور معاہدہ تحکیم کا انکار کرتے ہوئے ’’لا حکم الا للہ‘‘ کا نعرہ لگایا، جب کہ معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) اپنے ساتھیوں سے میل محبت کے ساتھ شام چلے گئے، پھر سال گزر جانے کے بعد دونوں حکم حسب وعدہ شعبان 38ھ میں ’’اذرح‘‘ میں جمع ہوئے، فریقین کے لوگ بھی ان کے پاس اکٹھا ہونے لگے، اپنی خفیہ مجلس میں وہ دونوں جس بات پر متفق ہوئے تھے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کھلے عام اس کی مخالفت کر دی، پھر ابوموسیٰ اشعری ( رضی اللہ عنہ ) آگے بڑھے اور علی و معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں سے اپنی دست برداری کا اعلان کردیا، پھر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ لوگوں سے مخاطب ہوئے اور علی رضی اللہ عنہ سے اپنی دست برداری کا اعلان کرتے ہوئے معاویہ رضی اللہ عنہ پر بیعت کرلی، اس طرح وہاں پر حکمین اور عوام کاہجوم منتشر ہوگیا اور اہل شام نے ذی القعدہ 38ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔[1] رہیں ابومخنف کی اسناد تو وہ معلول ہیں، کیونکہ ابومخنف لوط بن یحییٰ ضغیف ہے، ثقہ نہیں ہے۔[2] من گھڑت واقعات کو جمع کرنے والا اور متعصب رافضی ہے، ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ اس کے بارے فرماتے ہیں: ((کَانَ ضَغِیْفًا))[3] اور امام بخاری اورابوحاتم کا کہنا ہے کہ یحییٰ بن سعید القطان اسے ضعیف قرار دیتے تھے۔[4] اور عثمان دارمی کہتے ہیں: یہ ضعیف ہے۔[5] امام نسائی کہتے ہیں: ضعیف ہے۔[6]یہ ہیں ’’تحکیم‘‘ کے بارے میں مروجہ واقعہ، اور ابوموسیٰ اشعری وعمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے درمیان مناظرہ کی روداد پر مشتمل روایات کی اسناد، کیا اس قسم کی روایات دلیل بننے کے قابل ہیں؟ اور کیا صحابہ کرام کی تاریخ اور خلفائے راشدین کے تابناک عہد، جو قدوہ اور نمونہ کا عہد ہے، اس کے بارے میں ان روایات پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ ان روایات کے ضعف کے لیے تو بس اتنی ہی بات کافی تھی کہ اس کے متنون میں کس قدر اضطراب ہے، اس پر مزید اگر اسناد کا بھی ضعف ہو تو آپ خو داندازہ لگائیں کہ ان روایات کا کیا حال ہوگا۔[7] اس معاملہ کی اعتقادی و شرعی حیثیت: اگر اس معاملہ کی اس قدر اعتقادی و شرعی حیثیت بلند تھی تو کسی بھی صحیح سند سے اس کا ثبوت کیوں نہیں ملتا، یہ
[1] المراسیل /أبی حاتم ص (3) الجرح و التعدیل (1/246) ۔ [2] تہذیب التہذیب (12/27)۔ [3] تہذیب التہذیب (12/27)، مرویات تاریخ الطبری ص (406)۔ [4] مرویات تاریخ الطبری ص (406)۔