کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 802
متفق ہیں کہ کسی اور آدمی کو خلافت کے لیے نامزد کردیا جائے، اگر ہاں تو اس کا نام بتائیں، اگر میں طاقت رکھوں گا تو آپ کی تابعداری کرسکوں تو یہ آپ کا مجھ پر حق ہوگا کہ میں آپ کی تابعداری کروں، ورنہ آپ پر میرا یہ حق ہوگا کہ آپ میری تابعداری کریں۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں عبداللہ بن عمر کا نام پیش کرتا ہوں، واضح رہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فتنہ سے الگ رہنے والوں میں سے تھے اور عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں معاویہ بن ابی سفیان کا نام پیش کرتاہوں۔ پھر دونوں آپس میں تو تو، میں میں کرنے لگے اور وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ باہر نکل کر کہنے لگے میں نے عمرو کو ان لوگوں کی طرح پایا جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے:
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا (الاعراف:175)
’’اور انھیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنا جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا۔‘‘
جب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ خاموش ہوئے تو عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اے لوگو! میں نے ابوموسیٰ کو ان لوگوں کی طرح پایا جن کے بارے میں اللہ یہ مثال دی ہے:
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ
(الجمعۃ:5)
’’ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا، پھر انھوں نے اسے نہیں اٹھایا، گدھے کی مثال کی سی ہے جو کئی کتب کا بوجھ اٹھا ئے ہوئے ہے۔‘‘
پھر ان دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کی جو مثال دی وہی شہر وں میں لکھ کر بھیج دی۔[1]
اس واقعہ کے راوی زہری ہیں اور زہری نے وہ دور اور واقعہ نہیں دیکھا، بنابریں یہ روایت مرسل ہے اور ان کی مراسیل ہواؤں میں اڑنے والی خش و خاشاک جیسی ہوتی ہیں، وہ دلیل بننے کے لائق نہیں ہوتیں جیسا کہ علمائے رجال نے لکھا ہے۔[2]
اس واقعہ سے متعلق ایک دوسری سند بھی ہے جسے ابن عساکر نے اپنی سند سے امام زہری تک نقل کیا، لیکن یہ روایت بھی مرسل ہے، مزید برآں اس میں ابوبکر بن ابی سبرہ نام کا بھی ایک راوی ہے جس کے بارے میں احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: وہ احادیث گھڑتا تھا،[3] اسی طرح اس کی سند میں واقدی بھی موجود ہے جو کہ متروک راوی ہے،[4] بہرحال اس سند سے مروی واقعہ کی عبارت اس طرح ہے:
اہل شام نے مصاحف کو اٹھالیا، اور کہا: ہم تمھیں اللہ کی کتاب اور اس کے فیصلہ کی طرف بلاتے ہیں، حالانکہ
[1] حروراء ایک بستی کا نام ہے خوارج جنھوں نے علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا تھا ان کا تعلق اسی بستی سے تھا اس لیے ان کو حروری کہا جاتا ہے۔ (مترجم)