کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 801
چنانچہ اس اتفاق کے بعد جب علی رضی اللہ عنہ واپس لوٹے تو حروریوں[1] نے آپ کی مخالفت کی اور بغاوت و جنگ کا اعلان کردیا، یہ بغاوت کا سب سے پہلا ظہور تھا۔ انھوں نے بغاوت کی یہ وجہ بتائی کہ علی نے اللہ کے حکم میں بنوآدم (انسانوں) کو حاکم بنایا ہے جب کہ حکم اور فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، پھر ان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی کی اور جب دونوں حکم اذرح میں جمع ہوئے تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ چند لوگوں کے ساتھ جو وہاں موجود تھے حاضر ہوئے، حکمین نے عبداللہ بن عمر بن خطاب اور عبداللہ بن زبیر کو بلوایا کہ وہ بھی لوگوں کے ساتھ آئیں، ادھر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اہل شام کے ساتھ آپہنچے، لیکن علی رضی اللہ عنہ اور اہل عراق وہاں نہ پہنچے، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے قریش کے چند اصحاب رائے سے کہا: کیا آپ لوگ کسی کو بتا سکتے ہیں جو موجودہ حالات و ظروف کے پیش نظر یہ بتا سکے کہ دونوں حکم کسی نتیجہ پر پہنچیں گے یا یہ مجلس بے نتیجہ ختم ہوجائے گی؟ انھوں نے کہا: ہمارے خیال میں کوئی ایسا نہیں ہے جو بتاسکے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن میرا خیال ہے کہ حکمین سے ملنے کے بعد میں اسے بتا سکتا ہوں، پھر آپ عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اوران سے اس طرح ہم کلام ہوئے۔ اے ابوعبداللہ! میں آپ سے جو سوال کروں صرف آپ اس کا جواب دیں، آپ ہم فتنہ سے الگ رہنے والوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، موجودہ فتنہ جس میں آپ لوگوں نے اپنی صواب دید کے مطابق جنگ لڑی، ہم اس کے بارے میں شک و تردد میں رہے، ہم لوگوں نے سوچا کہ جب تک امت مسلمہ کسی متحدہ پلیٹ فارم پر نہ آجائے تب تک ہم الگ رہیں اور خاموشی اختیار کریں۔ انھوں نے جواب دیا: الگ رہنے والوں کے بارے میں میرا خیال ہے کہ یہ لوگ نیکوں کے پیچھے اور فاجروں کے آگے ہیں، اس کے بعد مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ وہاں سے لوٹ گئے اور مزید کچھ نہ پوچھا: پھر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور جو سوال عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کیا تھا وہی سوال ان سے کیا۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میرے خیال میں آپ لوگوں کی رائے سب سے بہتر ہے، آپ لوگوں میں مسلمانوں کے چنندہ افراد موجود ہیں، اس کے بعد مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ وہاں سے لوٹ گئے اور مزید کچھ نہ پوچھا، پھر قریش کے ان اصحاب رائے سے ملے جن سے حکمین سے متعلق گزشتہ گفتگو کرچکے تھے اور ان سے کہا: حکمین کسی ایک بات پر متفق نہیں ہوں گے، چنانچہ جب حکمین اکٹھا ہوئے اورآپس میں بات چیت شروع ہوئی تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوموسیٰ: میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت جس چیز کے بارے میں آپ برحق فیصلہ دیں وہ یہ کہ ابھی جنھوں نے وعدہ وفائی کی اورجنھوں نے غداری کی، ان کے بارے میں کیا فیصلہ ہو، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا مطلب؟ تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ معاویہ اور اہل شام نے وعدہ وفائی کی اور جس طرح ہم نے ان سے وعدہ لیا وہ وعدہ کے مطابق یہاں آئے، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہاں، ضرور۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے لکھئے، چنانچہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اسے لکھا، پھر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوموسیٰ! کیا آپ اس بات سے
[1] الوثائق السیاسۃ (537، 538) الأخبار الطول / الدینوری ص (196، 199) أنساب الاشراف (1/382) تاریخ الطبری (5/665، 666) البدایۃ والنہایۃ (7/276، 277)۔ [2] مرویات أبی مخنف فی تاریخ الطبری ص (404)۔