کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 800
الکندی، مخارق بن حارث الزبیدی، مسلم بن عمرو السلسکی، عبدالرحمن بن خالد بن ولید، حمزہ بن مالک، سبیع بن یزید بن ابجر العبسی، مسروق بن جبلہ العکی، بسر بن یزید الحمیری، عبداللہ بن عامر القرشی، عتبہ بن ابی سفیان، محمد بن ابی سفیان، محمد بن عمرو بن عاص، عمار بن الاحوص الکلبی، مسعدہ بن عمرو العتبی، صباح بن جلہمہ الحمیری، عبدالرحمن بن ذوالکلاع، تمامہ بن حوشب اور علقمہ بن حکم گواہ بنے۔ یہ معاہدہ بروز بدھ 17/صفر 37ھ کو لکھا گیا۔[1] عہد نامہ تحکیم کا مروجہ واقعہ اور اس کی تردید واقعہ تحکیم کے بارے میں بہت ساری باتیں کہی جاتی ہیں اور مؤرخین و مؤلفین بھی اسے اس انداز اور اعتماد پر لکھتے رہتے ہیں جیسا کہ وہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور اس میں شک و شبہ کی ادنیٰ بھی گنجائش نہیں ہے، کچھ لوگ اس کے پس منظر کو نہایت تفصیل سے بیان کرتے ہیں، تو کچھ لوگ کافی اختصار سے اور کچھ لوگ اس کی تشریح کرتے ہیں، اور اس سے اسباب و مواعظ مستنبط کرتے ہیں تو کچھ لوگ اس موضوع پر شرعی احکامات مرتب کرتے ہیں، بہت کم لوگ آپ کو ایسے ملیں گے جنھوں نے یہاں توقف سے کام لے کر غیرجانبدارانہ تحقیقات سے کام لیا ہو، ہاں علامہ ابن العربی نے اگرچہ مختصر ہی سہی، لیکن اس کی تردید میں بہت عمدہ بات لکھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نصوص کی تحقیقات و تنقید کا آپ کو بہترین ملکہ تھا، بہرحال آپ کی تحقیقات بالکل بجا ہیں کیونکہ واقعۂ تحکیم سے متعلق مروجہ تمام نصوص علمی تنقید کے معیار پر پورا نہیں اترتی ہیں، بلکہ کئی وجوہات سے ان کا بطلان ثابت ہوتا ہے،[2] جن کی تفصیلات اس طرح ہے: سندوں کا ضعف: اس واقعہ کے بارے میں سب سے صحیح سند امام عبدالرزاق اور طبری نے ثقہ راویوں سے عن طریق زہری مرسلاً نقل کیا ہے، جس میں امام زہری کا بیان ہے کہ اہل شام نے اپنے مصاحف کو کھول دیا اور اس کی طرف بلانے لگے، اس کی وجہ سے اہل عراق خوف زدہ ہوگئے اور اس وقت انھوں نے دو لوگوں کو حکم بنا لیا، اہل عراق نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اور اہل شام نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو، حکمین کے انتخاب کے بعد اہل صفین میدان جنگ سے کوچ کرگئے، حکمین نے باہم معاہدہ کیا کہ قرآن کا جو حکم ہوگا اس کی ہم دونوں تعمیل کریں گے اور جس سے روکے گا ہم رک جائیں گے اور یہ کہ جو امت محمدیہ کے حق میں بہتر ہوگا وہی فیصلہ کریں گے۔ باہمی صلح جوئی کے لیے دومۃ الجندل میں ہم جمع ہوں گے، اگر وہاں اس سال اکٹھا نہ ہوسکے توآئندہ سال ’’اذرح‘‘ میں جمع ہوں گے۔