کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 799
گزشتہ عہد و میثاق کے ساتھ روانہ کرے گا۔
9۔ اگر اس معاملہ میں فیصلہ کی مقررہ مدت سے قبل دونوں امیروں میں سے کسی کی وفات ہوگئی تو اس کے ساتھی اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو جس کے عدل پر انھیں اطمینان ہو امیر بنا لیں گے۔
10۔ یہ معاملہ فریقین کے درمیان گفت و شنید اور جنگ بندی کے سائے میں طے ہوگا۔
11۔ ہم نے اس عہد نامہ میں دونوں امیر، دونوں حکم، اور دونوں فریق سے متعلق جن شرائط پر اتفاق کیا ہے اس کا احترام سب پر لازم ہے، اللہ تعالیٰ اس پر سب سے قریبی گواہ ہے اور وہی گواہی کے لیے کافی ہے، اگر ان دونوں میں سے کسی نے بھی ان کی مخالفت کی اور حد سے تجاوز کیا تو پوری امت ان دونوں کے فیصلہ سے دست بردار ہے، اور کوئی معاہدہ اور کسی کا ذمہ نہیں۔
12۔ معاہدہ کا وقت جب تک باقی ہے تمام لوگوں کو ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا پورا اطمینان دلایا جاتا ہے، ہتھیار رکھے ہوئے ہوں گے، راستے پرامن ہوں گے، فریقین کا جو فرد بھی غائب ہے اس معاملہ میں اس کے لیے بھی موجودہ لوگوں کی طرح حکم ہے۔
13۔ حکمین کا فیصلہ ایسی جگہ ہو جو شام اور عراق کے وسط میں ہو۔
14۔ ان دونوں کے پاس کوئی تیسرا فرد نہیں جائے گا البتہ وہ دونوں جسے پسند کریں وہ ان کی باہمی رضا مندی کے بعد جاسکتا ہے۔
15۔ فیصلہ کرنے کی مدت ماہ رمضان ختم ہونے تک ہے، اگر حکمین مقررہ وقت سے پہلے فیصلہ سنانا چاہیں تو کرسکتے ہیں، اور اگر مقررہ مدت کے آخری وقت تک مؤخر کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
16۔ اگر وہ دونوں مقررہ مدت ختم ہونے تک کتاب اللہ اور سنت رسول کے مطابق فیصلہ نہیں کرپاتے تو فریقین اپنی پہلی سی جنگی پوزیشن پر لوٹ جائیں گے۔
17۔ اس معاملہ میں پوری امت پر اللہ کا عہد و میثاق ہے، اگر کوئی شخص اس معاملہ میں الحاد، ظلم یا اختلاف پیدا کرے گا تمام لوگ اس کے خلاف متحد ہوں گے۔
پھر اس معاہدہ پر علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ کے دونوں صاحبزادے، حسن اور حسین اور عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب، اشعث بن قیس الکندی، اشتر بن الحارث، سعید بن قیس الہمدانی، حارث بن عبدالمطلب کے دو صاحبزادے حصین اور طفیل، ابوسعید بن ربیعہ الانصاری، عبداللہ بن خباب بن ارت، سہل بن حنیف، ابوبشر بن عمر الانصاری، عوف بن حارث بن عبدالمطلب، یزید بن عبداللہ الاسلمی، عقبہ بن عامر جہنی، رافع بن خدیج الانصاری، عمرو بن الحمق الخزاعی، نعمان بن عجلان الانصاری، حجر بن عدی الکندی، یزید بن حجیۃ الکندی، مالک بن کعب الہمدانی، ربیعہ بن شرحبیل، حارث بن مالک، حجر بن یزید، اور علبہ بن حجیہ گواہ بنے۔
اہل شام کی طرف سے حبیب بن مسلمہ الفہری، ابوالاعور السلمی، بسر بن ارطاۃ القرشی، معاویہ بن خدیج
[1] عمرو بن العاص / الغضبان ص (492)۔