کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 798
بھڑکانے کے لیے کافی تھی، اور ایسے وقت میں ضروری تھا کہ جن مجرموں نے حرم مقدس کی پاکیزگی کو داغ دار کیا ہے اور برسرعام خلیفۃ المسلمین کو قتل کیا ہے ان کے خلاف محاذ جنگ چھیڑنے کے لیے مدینہ کے علاوہ کسی اور جگہ کو منتخب کیا جائے، چنانچہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے یہی کیا، اگر عمرو بن عاص ، عثمان رضی اللہ عنہما کی حمایت میں اس قدر غصب ناک ہوئے تو اس میں کون سی تعجب کی بات ہے؟ اس سلسلہ میں جن لوگوں کو آپ کے کردار پر شک ہے وہ محض اس بنا پر کہ ان کا حاصل مطالعہ وہ ضعیف اور من گھڑت روایات ہیں جن میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو مسند اقتدار کا لالچی اور حکومت کا خواہاں دکھایا گیا ہے۔[1] معاہدۂ تحکیم کی قرار دادیں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 1۔ یہ وہ عہد نامہ ہے جس پر علی بن ابی طالب اور ان کے حامیوں نے اور معاویہ بن ابی سفیان اوران کے حامیوں نے اتفاق کیا ہے، طے یہ پایا ہے ہے ہم دونوں صرف کلام الٰہی اور سنت نبوی کے فیصلہ کو منظور کریں گے۔ 2۔ علی کے حق میں جو فیصلہ ہوگا وہ اہل عراق کے حاضر و غائب پر اور معاویہ کے حق میں جو فیصلہ ہوگا وہ شام والوں کے حاضر وغائب سب پر نافذ ہوگا۔ 3۔ کتاب اللہ ہمارے درمیان شروع سے آخر تک فیصلہ کن ہوگی، وہ جس بات کا ہمیں حکم دے گی ہم اس کی تعمیل کریں گے اور جس سے منع کرے گی اس سے رک جائیں گے۔ یہی ہمارا فیصلہ ہے اور اسی پر ہم راضی ہیں۔ 4۔ علی اور ان کے حامی عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ اشعری) کو اور معاویہ عمرو بن عاص کو اپنا حکم بنانے پر متفق و راضی ہیں۔ 5۔ علی اور معاویہ نے عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ اشعری) اور عمرو بن عاص سے اللہ کے عہد و میثاق اور اس کے رسول کے حکم کی پاس داری کے حوالہ سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ دونوں قرآن کو اپنا امام بنائیں گے اور جو حکم اس میں تحریر پائیں گے اس سے تجاوز نہ کریں گے اور اگر کوئی بات کتاب اللہ میں نہ پائیں گے تو سنت عادلہ جامعہ کی طرف لوٹائیں گے اس میں جان بوجھ کر اختلاف پیدا نہ کریں گے اور نہ شبہ کی تلاش میں ہوں گے۔ 6۔ اسی طرح عبداللہ بن قیس اور عمرو بن عاص نے علی اور معاویہ سے اللہ کا یہ عہد و میثاق لیا ہے کہ کتاب اللہ اور سنت نبی کے مطابق وہ دونوں جو بھی فیصلہ کریں گے انھیں خوشی خوشی منطور ہوگا، اسے توڑنے یا کسی دوسری طرف فیصلہ لے جانے کا انھیں حق نہیں ہوگا۔ 7۔ حکمین کو ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا پورا اطمینان دلایا جاتا ہے، وہ حق سے نہ ہٹیں، کوئی خوش ہو یا ناراض، کتاب اللہ کے مطابق ان کے برحق فیصلہ نافذ کرنے میں امت ان کی مدد کرے گی۔ 8۔ اگر فیصلہ سے قبل حکمین میں سے کسی کی وفات ہوجائے تواس کی بجائے اس کا فریق اسی جیسے عادل و صالح کو
[1] عمرو بن العاص / الغضبان ص (464)۔ [2] عمرو بن العاص / الغضبان ص (481)۔ [3] سفراء النبی / محمود شیث خطاب ص (508)۔ [4] عمرو بن العاص / عبدالخالق سید أبورابیۃ ص (316)۔ [5] عمرو بن العاص / العقاد ص (231، 232)۔ [6] عمرو بن العاص / الغضبان ص (489، 490)۔