کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 797
ماتم ہے، اس طرح آپ دمشق پہنچے۔[1] یہ ہے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی زندگی کی سچی تصویر جو آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمیٹے ہوئے ہے اور آپ کی زندگی کے خدو خال اور عثمان رضی اللہ عنہ سے آپ کی قربت کو نمایاں کرتی ہے، رہی آپ کی زندگی کی وہ تصویر جس میں آپ کی کردار کشی کرتے ہوئے آپ کو ایک مفاد پرست، لالچی اور دنیا دار انسان دکھایا گیا ہے تو اس تصویر کا دارومدار واہی تباہی اور ضعیف روایات پر ہے جو واقدی نے موسیٰ بن یعقوب سے نقل کی ہے۔[2] بے حد افسوس ہے کہ بہت سارے مؤرخین و مؤلفین ان ضعیف اور بے بنیاد روایات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو تحت الثریٰ پہنچا دیا، جیسا کہ محمود شیث خطاب نے ’’سفراء النبی‘‘[3]میں اور عبدالخالق سید ابورابیہ نے ’’عمرو بن العاص‘‘[4]میں لکھا ہے۔اور خاص طور سے مصری مؤلف عباس محمود عقاد جو اسناد کی کوئی اہمیت نہیں دیتا اور اس پر بحث کرنے والوں کا استہزاء کرتا ہے اس نے معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے کردار کو مجروح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ دونوں اس لیے مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے کہ وہ مفاد پرست تھے اوراتنا ہی نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اگر تاریخی روایات کے تمام ناقدین متحد ہو کر اس سلسلہ میں ان دونوں کی طرف منسوب غلط روایات کی تردید و تکذیب کریں تو بھی عقاد پر کچھ اثر پڑنے والا نہیں، چنانچہ اس موضوع پر ضعیف اور من گھڑت روایات کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے: تاریخی روایات کے ناقدین اس گفتگو کی صداقت اور عبارتوں کی صحت سے متعلق جوبھی کہنا چاہیں کہیں کہ فلاں روایت کا راوی غیر معتبر ہے، اس روایت کی سند ثابت نہیں، یا متن صحیح نہیں، حتیٰ کہ اگر ساری تواریخ قطعیت کے ساتھ اس کی تردید کریں، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان دونوں ادمیوں (معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ) کے درمیان ملک گیری کے سودے پراتفاق ہوا تھا اور مسند اقتدار کے لیے ایک دوسرے کے معاون تھے، انھوں نے باہم طے کرلیا تھا کہ جس کے قبضہ میں جو حصہ آئے گا وہ اس کا حاکم ہوگا، اگریہ بات نہ ہوتی تو دونوں کے درمیان اتفاق نہ ہوتا۔[5] صحیح اورسچی بات یہ ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی شخصیت ایک اصولی شخصیت تھی، یہی وجہ رہی کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کرنے سے عاجز رہے تو مدینہ چھوڑ دیا اور آپ کی شہادت کی خبر سنی تو بہت روئے، بغیر کسی منصب کے حوالہ سے آپ عثمان رضی اللہ عنہ کی مجلس شوریٰ میں برابر شریک ہوتے تھے، مدینہ چھوڑ کر آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اور وہاں دونوں ہی مظلوم خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کے خلاف محاذ جنگ کھولنے کے لیے ایک دوسرے کے معاون رہے۔[6] تنہا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ان سفاکوں اور مجرموں کے خلاف آپ کے پورے غصہ کو
[1] سیر أعلام النبلاء (3/70) القیادۃ العسکریۃ فی عہد الرسول ص (634، 945)۔ [2] سیر أعلام النبلاء ص (3/70)۔ [3] عمرو بن عاص / الغضبان ص (464)۔