کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 60
بے بسی کے باوجود اسی کی طرف داری کریں گے، یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے صدق و اخلاص و اتباع نبوی کی وجہ سے اللہ نے ان کے ہاتھوں کو قوت عطا کی ہوگی۔
اور ان علماء و طالبان علوم شریعت کو اس سے فائدہ پہنچے گا جن کے قلم میں شہیدوں کے خون کی روشنائی بھری ہے، ایسے تاجران سے مستفید ہوں گے جو اپنی جان و مال کے ساتھ اسلامی دعوت کے قافلہ کو آگے بڑھانے کے اصل محرک ہیں، اور زبان سے گویا ہیں:
إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّـهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾ إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا ﴿١٠﴾ (الدھر:9-10)
’’(اور کہتے ہیں) ہم تو صرف اللہ کے چہرے کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔یقینا ہم اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو بہت منہ بنانے والا، سخت تیوری چڑھانے والا ہو گا۔‘‘
وہ خفیہ ہاتھ اس کا مطالعہ کریں گے جو اس دنیا میں آج تو نامعلوم ہیں، لیکن آئندہ کل رب کائنات کی ہمیشگی والی جنت میں وہی سب سے بلند و بالا اور نمایاں ہوں گے، آج تخریبی آندھیوں کا طوفان شباب پر ہے، وہ ہمارے اسلام، عقیدہ اور دین و مذہب کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتا ہے، صلیبی، یہودی، باطنی، بدعتی اور سیکولرازم اور لادینیت کے مؤیدین جیسے دشمنان اسلام ہمارے حکام، قائدین اور بزرگوں کو علم و ادب اور سیاست کے میدان میں اپنا دست نگر بنا کر رکھنا چاہتے ہیں، ان سب کا مقصد ایک ہے وہ یہ کہ ہماری تاریخ کو مسخ کردیں۔
اگر بحیثیت امت ہماری کوئی تابناک تاریخ نہ ہو تو ہم صالح امت کبھی نہیں کہلا سکتے، جس امت میں عبقری شخصیات نہ ہوں اس کی قیمت ہی کیا ہوسکتی ہے؟ کیا ہم اپنے شان دار ماضی کی تاریخ سے سبق نہیں سیکھ سکتے کہ جس سے اللہ کے دشمنوں کی رسوائی ہو، ان کی سازشیں ناکام ہوجائیں اور وہ تاریخ دوبارہ ہمیں اپنی دعوت عام کرنے اور تہذیب کو تقویت دینے میں مدد کرے؟ درحقیقت تاریخ کے اس سخت اور پریشان کن دور میں انسانیت اللہ کے بتائے ہوئے نظام سے ہٹ جانے کی وجہ سے تباہی کے منجدھار میں ہچکولے کھا رہی ہے، حالانکہ اس کا علاج صرف اور صرف مسلمانوں کے پاس ہے تو کیا مسلمان اس کے لیے قربانی دے سکتے ہیں؟ اور دوسروں کو ڈوبنے سے بچا سکتے ہیں؟
شاعر نے کہا ہے:
وَ مِنَ الْعَجَائِبِ وَ الْعَجَائِبُ جُمَّۃٌ قُرْبُ الْحَبِیْبِ وَ مَا إِلَیْہِ وَصُوْلُ
’’عجائبات بے شمار ہیں، انھیں میں سے ایک یہ ہے کہ محبوب کے پاس رہ کر بھی اس تک رسائی ممکن نہ ہوسکے۔‘‘
کَالْعِیْر فِی الْبَیْدَائِ یَقْتُلُہَا الظَّمَا وَ الْمَائُ فَوْقَ ظُہُوْرِہَا مَحْمُوْلُ
’’جیسے کہ صحراء میں اونٹ پیاس سے مر رہا ہو اور پانی اپنے پشت پر لادے ہوئے ہو۔‘‘
تو کیا اب اسلام کی طرف پلٹنا ممکن نہیں رہا کہ جو کدورتوں سے ہمارے دلوں کو پاک صاف کردے، اخلاق حسنہ سے ہمیں مزین کردے اور قرآن کریم سے ہمیں جوڑ دے اور مذہب اسلام نیز اس کے لانے والے پیغمبر