کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 59
نے غداری کیا تو اس گروہ کے خلاف اسلامی صف بندی متحد نظر آئی۔ اسلامی تاریخ کے مدوجزر کامطالعہ کرنے والا بالخصوص نور الدین اور صلاح الدین کے دور کی صلیبی لڑائیوں، سلطان محمد فاتح کے عہد حکومت میں عثمانیوں نیز یوسف بن تاشفین کے عہد میں مرابطین کے ادوار پر جس کی نظر ہے وہ محسوس کرے گا کہ ان کی ترقی اور فتح و نصرت کے کئی اسباب تھے، مثلاً صاف ستھرا عقیدہ، واضح فکر و طریقۂ عمل، حدود سلطنت میں شریعت الٰہی کی بالادستی اور ایسی ربانی قیادت تھی جو نور الٰہی سے دیکھتی تھی، قوموں کی تربیت اور حکومتوں کے قیام و انہدام میں نظام الٰہی کے نفاذ میں اس کی گرفت قوی تھی، معاشرہ کی بیماریوں، قوموں کے عادات و اطوار، تاریخ کے اسرار و رموز، صلیبوں، یہودیوں، ملحدوں، باطنی فرقوں اور بدعتیوں جیسے دشمنان اسلام کی ریشہ دوانیوں پر گہری نگاہ اور بلند معرفت تھی، ہر کس و ناکس کے ساتھ بہتر برتاؤ تھا اور اسے اس کا فطری حق ملتا تھا۔ چنانچہ ترقی و غلبہ کے مسائل اور دور رس اثرات کے متحمل ترقی کے منصوبوں کے اسباب و عوامل، باہم اس طرح مربوط و متداخل ہیں کہ ان کا احاطہ مکمل طور سے وہی آدمی کرسکتا ہے جس نے قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح سمجھا ہو، خلافت راشدہ کی فقہ و بصیرت سے مربوط ہو، ربط بھی ایسا کہ اس کے نقوش و خصائص اور اسباب بقاء و زوال سے آگاہ ہو، اسلامی تاریخ اور ترقی و نصرت کے اسباب و تجربات سے استفادہ کیا ہو، اور اسے یقین ہو کہ اس امت نے جب تک اپنے رب کے فرمان اور نبی کی سنت کی تابعداری کی ہے کبھی ہزیمت نہیں اٹھائی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میدان جنگ کی ہزیمت تو وقتی ہوتی ہیں جنھیں بھلایا جاسکتاہے، لیکن تہذیب و ثقافت کی ہزیمتیں جان لیوا زخم ثابت ہوتی ہیں، صحیح اور روشن ثقافت کتاب اللہ، سنت رسول اور طریقۂ خلفائے راشدین سے مستفید اپنے مضبوط اصولوں پر مسلم فرد، سماج، خاندان اور مسلم ممالک کی تعمیر کرتی ہے اور سب سے صحیح و بے نظیر تہذیبی و تمدنی عمارت وہی ہے جس نے اللہ کی توفیق و حفاظت سے آج تک اسلام کے قلعہ کو محفوظ رکھا۔ لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ اس دین کی ترقی کے لیے کام کریں، ہماری خوش بختی یہ نہیں ہے کہ اس کا پھل ہم جلد ہی توڑ لیں، بلکہ اصل خوش بختی یہ ہے کہ ہمیں اللہ کی توفیق کا شعور اوراس کی رضا مندی کی امید ہو۔ خلافت راشدہ کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے میں نے پوری کوشش کی ہے کہ صحیح روایات کی روشنی میں اس دور کے کارناموں کو نکھارنے کے لیے مناسب الفاظ اور بہترین جملے استعمال کروں، تاکہ مسلمانوں کی نئی نسلیں اس تابناک دور سے بہت کچھ سیکھ سکیں، انھیں فقہی بصیرت اور اسلام کی شمولیت کا علم ہو، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کاوش میں برکت عطا فرمائے گا، اور ایسے بہت سے مبلغین اسلام کو اس سے فائدہ پہنچائے گا جن کا نام میں تو نہیں جان سکتا البتہ تاریخ اپنے صفحات میں انھیں ضرور جگہ دے گی، وہ عالم اسلام کی غلطیوں و لغزشوں کی تلافی کریں گے اور اسے بھٹکنے سے بچائیں گے، یہ مبلغین اسلام ربانی ہوں گے، خلوص و للہیت کے پیکر ہوں گے، انھوں نے حق کو سمجھا ہوگا، اس کی مدد میں انھیں سعادت نظر آئے گی، اس کے لیے سخت ہوں گے، اس کی طرف سے دفاع کریں گے، تنگ دامانی اور