کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 58
وَإذَا اضْطَرَرْتَ إِلَی الْجِدَالِ وَ لَمْ تَجِدْ لَکَ مَہْرَبًا وَ تَلَاقَتِ الصَّفَّانِ
’’اور جب تمھیں بحث و جدال کرنے پر مجبور ہی ہونا پڑے اور کوئی جائے فرار نہ ہو اور فریقین میں جنگ چھڑ جائے۔‘‘
فَاجْعَلْ کِتَابَ اللِّہِ دِرْعَا سَابِغًا وَ الشَّرْعَ سَیْفَکَ وَ ابْدُ فِی الْمَیْدَانِ
’’تو اللہ کی کتاب کو اپنی طویل زرہ اور شریعت کو اپنی تلوار بنا لو اور میدان میں اتر جاؤ۔‘‘
وَ السُّنَّۃَ الْبَیْضَائَ دُوْنَکَ جُنَّۃً وَ ارْکَبْ جَوَادَ الْعَزْمِ مِنَ الْجَوْلَانِ
’’اور روشن سنت کو اپنے لئے ڈھال بناؤ اور میدان کارزار میں عزم کا شہ سوار بن جاؤ۔‘‘
وَ اثْبُتْ بِصَبْرِکَ تَحْتَ أَلْوِیَۃِ الْہُدیَ فَالصَّبْرُ أَوْثَقُ عُدَّۃِ الْإِنْسَانِ
’’اور ہدایت کے جھنڈوں تلے صبر و ضبط کے ساتھ جم جاؤ، کیوں کہ صبر ہی انسان کا سب سے مضبوط سامان سفر ہے۔‘‘
وَاطْعَنْ بِرُمْحِ الْحَقِّ کُلَّ مُعَانِدٍ لِلّٰہِ دَرُّ الْفَارِسِ الطَّعَّانِ
’’حق کے نیزے سے ہر دشمن کو زخمی کرو، نیزہ بار شہسوار کے لیے کیا ہی بہترین کامیابی ہے۔‘‘
وَاحْمِلْ بِسَیْفِ الصِّدْقِ حَمْلَۃَ مُخْلِصٍ مُتَجِّرِدًا لِلّٰہِ غَیْرَ جَبَانِ
’’صداقت کی تلوار سے زبردست حملہ کرو، جیسے کہ ایک مخلص اور محض رضائے الٰہی کا طالب بہادر مجاہد حملہ کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح علمائے اہل سنت، ان میں سے دانش ور، اور اہل حل و عقد حضرات جو سماجی کارکن ہوتے ہیں، بھلائی کی طرف مسلمانوں کی قیادت کرنے میں ان کا اہم کردار ہوتاہے، دراصل یہی لوگ شریعت کے مقرر کردہ مصالح و مفاسد کی روشنی میں اندرونی و بیرونی سیاسی نظریات اور قوموں و جماعتوں کے معاہدوں کا احترام کرنے والے ہیں، قیادت واصلاح کی یہ ذمہ داری علماء اور مبلغینِ اسلام کے لیے اس بات سے مانع نہیں ہے کہ وہ مسلم عوام کو اہل سنت والجماعت کے طریقہ کار اور اصولوں سے واقف کرائیں، انھیں اس بات کی دعوت دیں اور مسلم سماج میں دراندازی کرنے والے فاسد عقائد سے انھیں خبردار کریں، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جن باطل افکار و عقائد کی تبلیغ و اشاعت میں شرپسند اور دشمنان اسلام پوری جہد و جد کے ساتھ شب و روز لگے ہوئے ہیں ان سے مسلم عوام متاثر ہوجائے، اس موضوع سے متعلق ہمیں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ایک طرف آپ نے وہاں کے یہودیوں سے معاہدہ کیاکہ جس سے اسلامی حکومت کے زیرسایہ انھیں امان و حفاظت ملی اور دوسری طرف اسی وقت میں قرآن کریم انھیں یہودیوں کے عقائد، سیاہ تاریخ اور برے اخلاق کو بیان کرتا رہا، تاکہ مسلم سماج یہودیت سے خبردار رہے اور اس کے دھوکہ میں نہ آئے، یہی وجہ تھی کہ جب یہودیوں