کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 57
اہل سنت کے متقدمین و سرخیل علماء و فقہاء مثلاً علی رضی اللہ عنہ ، آپ کی اولاد و احفاد کے حوالہ سے شیعہ و روافض کو کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی صحیح تعبیر کے قریب لایا جائے، صحیح شیعی اصلاحی تحریکات کی قدر کرتے ہوئے اس کا ساتھ دیا جائے جیسا کہ سید حسین موسوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’للہ ثم للتاریخ، کشف الأسرار و تبرئۃالأئمۃ الأطہار‘‘ میں شیعوں کے ساتھ سچی خیرخواہی کا حق ادا کیا ہے اور اسی طرح سید احمد الکاتب نے اپنی کتاب ’’تطور الفکر السیاسی الشیعی من الشوری إلی ولادیۃ الفقیہ‘‘ میں پیش کیا ہے۔ اسی طرح ہم پر واجب ہے کہ اہل بیت کا جو شخص سچا محب و مخلص نظر آئے یعنی کتاب و سنت کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرنے میں ان کے صحیح آثار اور عمدہ سیرتوں کا پابند ہو اس سے ہم بہتر تعلقات رکھیں، اس کے ساتھ احترام و توقیر کا برتاؤ کریں، اسے سہارا دے کر امان و حفاظت کے ساتھ ساحل تک پہنچائیں، اس سے کہیں کہ عقل کو کام میں لاؤ، اسے بندشوں سے آزاد کرو، فطرت کی آواز اور دعوت پر اباطیل کے جو بھاری انبار لگ چکے ہیں انھیں صاف کرو، تاکہ روشن حقیقت تک رسائی کے لیے اس میدان میں روشن عقلیں اور فطرت سلیمہ اپنااپنا کام کریں۔ علمائے اہل سنت پر یہ بھی ضروری ہے کہ بدعتیوں کی بدعات پر رد و قدح کرنے میں خوشگوار علمی بحث و تحقیق کا اسلوب اپنائیں، ان سے قدرے نرم پہلو اختیار کریں، ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ گاہے بگاہے ان کی زیارت کرلیا کریں اور جن مسائل میں کوئی اختلاف نہیں ہے ان میں تعاون بھی کریں، ناگہانی حوادث اور مشکلات و مصائب کے ایام میں، خاص طور سے جب وہ کفار و ظالموں سے برسرپیکار ہوں، ان کی مدد فرمائیں، لیکن واضح رہے کہ تعاون و مصالحت کا یہ موقف مصالح و مفاسد کا صحیح معیار رکھنے والی شرعی سیاست اور اس کے مزاج سے ہم آہنگ ہو، البتہ باہمی تعاون بہتر تعلقات، اور سنجیدہ گفتگو کا یہ رشتہ ہمیشہ ایک حالت پر باقی رہنے والا نہیں ہے، کیوں کہ ممکن ہے کسی چور دروازہ سے کوئی رافضی بھی اس رشتہ سے خود کو جوڑ لے اور آگے چل کر وہ فتنہ اور ہنگامہ آرائی کا سبب بنے، لہٰذا اس پر خاموشی اچھی نہیں، بلکہ ضروری ہے کہ اس کی گرفت کی جائے اور ان کے غلو اور شاذ خیالات کی ہر حال میں تردید کی جائے۔ متعصبین اور غیر متعصبین کے درمیان جو چیز حد فاصل ہوگی وہ یہ کہ گفتگو کی بنیاد، دلائل اور طرز گفتگو میں دیکھا جائے کہ ان شرعی نصوص پر اسے کہاں تک اعتماد ہے، جن سے کسی شک و شبہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے، یا ان کی تاویلات کو وہ کس نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے، رہا وہ شخص جو نامعلوم اور متاخرین کی طرف منسوب کی ہوئی انوکھی باتوں کو ڈھونڈ کر لاتا ہے، جن کی حقیقت کا کوئی پتہ نہیں، تو ہمیں پہلی فرصت میں اس کی تردید کرنا چاہئے، بلکہ بسااوقات اس کی تردید میں سختی کرنا واجب ہو جاتی ہے، شاعر کہتا ہے: وَ احْذَرَ مُجَادَلَۃِ الرِّجَالِ فَاِنَّہَا تَدْعُوْ إِلَی الشَّحْنَائِ وَ الشَّنَانِ ’’لوگوں سے بحث و جدال سے بچو، کیوں کہ وہ آپسی کدورتوں اور خون ریزیوں کو دعوت دیتی ہے۔‘‘