کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 56
سے تھام لو اور ڈاڑھوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔‘‘ اور سنت کی مخالفت سے ممانعت پر فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٍ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔))[1] ’’دین میں نئی چیزیں نکالنے سے بچو، اس لیے کہ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ نیز فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ ۔)) [2] ’’جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ درحقیقت ان فرامین نبوی پر وہی لوگ کاربند ہیں، جو ان کے افکار و عقائد منہج نبوی اور طریقہ نبوت سے دور رہنے والے نفس پرستوں اور بدعت کے شیدائیوں سے بالکل جدا ہیں۔ اہل سنت کے عقیدہ و فکر کا آغاز اس وقت سے ہوا جب سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت پر سرفراز ہوئے، جب کہ نفس پرستوں اور بدعتیوں کے عقائد و افکار کا ظہور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ گزر جانے کے بعد عہد صحابہ کے بالکل اخیر میں بلکہ اس کے بعد کے ادوار میں ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی ہی میں فرمایا تھا کہ ((مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیٰری اِخْتِلَافًا کَثِیْرًا))[3] ’’تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ عنقریب بہت اختلافات دیکھے گا‘‘پھر آپ نے رہنمائی کی کہ صراط مستقیم یعنی میری سنت اور خلفائے راشدین کے منہج پر چلتے رہنا، آپ نے بدعات سے ڈرایا اور بتایا کہ وہ گمراہیاں ہیں۔ یہ بات نہایت نامعقول اور ناقابل قبول ہے کہ طریقہ حق اور منہج صحابہ پر پردہ ڈال دیا جائے اور ان کے بعدآنے والے انسانوں کو اپنا پیشوا اور ان کے منہج کو قابل عمل بنا لیا جائے، تمام ہی بدعات برائیوں کا پلندہ ہیں، اگر ان میں کسی طرح کی کوئی بھلائی ہوتی تو صحابہ کرام انھیں ضرور بالضرور کر گزرتے، لیکن افسوس ہے کہ ان کے بعد آنے والی نسلیں آزمائش میں مبتلا ہوئیں اور منہج صحابہ سے کٹ گئیں۔ سچ کہا ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے کہ اس امت کے آخری لوگ اس وقت تک ہرگز درست نہیں ہوسکتے جب تک کہ اس چیز کو نہ اپنا لیں جس سے ان کا اگلا گروہ درست ہوا تھا۔ چنانچہ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اہل سنت و جماعت خود کو حدیث نبوی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور دوسرے لوگ اپنے کو خود ساختہ جماعتوں یا مخصوص جگہوں اور افراد کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ شیعہ سنی مفاہمت کا بنیادی منہج یہ ہے کہ حق کو بیان کیا جائے اور باطل کی نقاب کشائی کی جائے، اہل بیت و
[1] أبوداود (4607)، الترمذی (2678) ابن ماجہ (42)، الدارمی (296)، أحمد (4/126، 127) الحاکم (1/96) الصحیحۃ للالبانی (937) [2] متفق علیہ، صحیح البخاری (5063) و مسلم (1401) [3] ابوداود (4607)، الترمذی (2678)، ابن ماجہ (427)، الدارمی (296)، أحمد (4/126، 127) الحاکم (1/96)، الصحیحۃ للالبانی (927)