کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 54
لانے کے لیے جسم کو اذیتیں دینے، دوسروں پر تنگی کرنے، جہل کو علم کا لبادہ پہنانے، غرور اور اپنی رائے دوسروں کو تھوپنے اور دوسروں کو جاہل گرداننے، پابند شرع علماء کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے، ان کے بارے میں بدگمانی کرنے، دوسروں کے ساتھ بے رحمی کا مظاہرہ اور مسلمانوں کی تکفیر جیسے اہم مظاہر جو کہ خوارج کی غلو پرستی کی علامتیں ہیں ان کی طرف بھی میں نے اشارہ کردیا ہے۔ اسی طرح روافض کے بارے میں بھی گفتگو کی گئی ہے، چنانچہ شیعہ اور روافض کا لغوی اور اصطلاحی معنی تحریر کیا ہے، انھیں روافض کیوں کہا جاتا ہے؟ ان کا وجود کب ہوا؟ ان کی گروہ بندی میں یہودیوں کا کیا کردار رہا؟ یہ فرقہ کن مراحل سے گزرا؟ اس کے عقائد کیا ہیں؟ اور ان عقائد کے بارے میں امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور علمائے اہل بیت کا کیا موقف ہے؟ مثلاً یہ کہ امامت کے بارے میں ان کا کیا عقیدہ ہے اور اس کے منکر کا ان کے نزدیک کیا حکم ہے؟ پھر یہ کہ ائمہ معصوم ہیں وغیرہ وغیرہ، ان تمام باتوں کو میں نے اہمیت دی ہے۔ ائمہ کی عصمت کے دلائل کو ذکر کرکے انھیں بحث و تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ تطہیر، مباہلہ اور ولایت سے متعلق نازل شدہ آیات سے ان کے قرآنی استدلال اور حدیث میں وارد خطبہ غدیر خم اور (( أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی۔))جیسی روایات سے ان کے مزمومہ استدلال سے بھی پردہ اٹھایا ہے، چڑیا، اور گھر والی حدیث، نیز یہ کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں، یہ اور اس طرح کی تمام ضعیف و موضوع روایات جنھیں ان لوگوں نے امامت کی ثبوت میں بطور دلیل پیش کیا ہے، ان کی اسنادی حیثیت الگ الگ کر دی ہے۔ اسی طرح اس کتاب میں ان ضعیف وموضوع احادیث کی ایک فہرست بھی شامل کردی گئی ہے، جنھیں عموماً روافض معرض استدلال میں پیش کیا کرتے ہیں۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو خبردار کرنا ہے کہ وہ ان کے جال میں نہ پھنسیں۔ روافض کے نزدیک توحید کسے کہتے ہیں؟ اللہ کی وحدانیت کو ثابت کرنے والے نصوص شرعیہ کو انھوں نے کس طرح تحریف کرکے اپنے ائمہ کی ولایت کے حق میں ثابت کیا ہے، نیز یہ کہ امامت کا عقیدہ رکھنا، قبولیت اعمال کے لیے شرط ہے، ائمہ معصومین اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں، ان کے بغیر کوئی ہدایت یاب نہیں ہوسکتا، ان کے نام کا واسطہ دئے بغیر دعا کی قبولیت نہیں ہوتی اور یہ کہ روافض کی زیارت گاہوں اور مزاروں کی زیارت کرنا، حج بیت اللہ سے افضل ہے۔ اس طرح کی تمام باتوں کی حقیقت کو میں نے واضح کردیا ہے۔ مذکورہ عقائد کی طرح ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ امام اپنی مرضی سے جو چاہے حلال کرے اور جو چاہے حرام کرے، دنیا و آخرت پر پورا قبضہ امام کا ہے، وہ اس میں جس طرح چاہے تصرف کرے، کائنات میں جو کچھ بھی حادثات رونما ہوتے ہیں، وہ سب ائمہ کے حکم سے ہوتے ہیں، انھیں ماضی، مستقبل دونوں کا علم ہے، ان سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، علاوہ ازیں صفات الٰہیہ کے اثبات میں روافض کے یہاں مبالغہ آمیزی اور تعطیل صفات کی حقیقت، قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ، آخرت میں دیدار الٰہی کا مسئلہ، ائمہ روافض کا انبیاء و رسل سے افضل ہونا، ن مسائل کو بھی مختصراً قلم بند کیا