کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 53
خصوصی توجہ دی ہے، صحابہ کی تابناک و پاکیزہ تاریخ کو ظلم و سرکشی کے دھبوں سے داغ دار کرنے والی چند اہم کتب کا تذکرہ کرتے ہوئے ان سے خبرداررہنے کی تلقین کی ہے، مثلاً ’’کتاب الامامۃ والسیاسۃ‘‘ کہ جس کی جھوٹی نسبت ابن قتیبہ کی طرف کی جاتی ہے، اسی طرح اصفہانی کی کتاب ’’الاغانی‘‘، ’’تاریخ الیعقوبی‘‘ اور ’’تاریخ المسعودی‘‘ جیسی دیگر کتب جو کہ اہل سنت وجماعت کے منہج و عقیدہ سے دور ہیں۔ اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے اسلامی تاریخ میں مستشرقین کی تحریف، افتراء پردازی اور اصلی شکل کو بگاڑنے میں ان کی ناروا کوششوں کو بھی میں نے واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ روافض شیعہ کی کتب سے انھوں نے کس طرح استفادہ کیا اور افکار کو پراگندہ کرنے، واقعات کو تحریف کرنے، حقائق کو مسخ کرنے، اسلامی تاریخ میں سیاہ دھبوں کو پھیلانے کے لیے چمک دار و جاذب نظر عناوین مثلاً ’’خالص معروضی مطالعہ‘‘، ایک موضوعی مطالعہ‘‘ اور ’’غیرجانبدارانہ علمی تحقیق‘‘ وغیرہ کے نام سے اسلام مخالف مراکز اور ادارے کھولے اور بدقسمتی سے بہت سے لوگ جو کہنے کو تو مسلمان ہیں لیکن اسلام کو اچھی طرح جانتے بھی نہیں اور نہ ہی اس کی وضاحت کرسکتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں اور نہ اس کی طرف سے دفاع کرتے ہیں، ایسے بہت سارے مسلمان انھیں پراگندہ و برباد کن خیالات کو گلے لگاتے ہیں، اتنا ہی نہیں بلکہ وہ دشمنان اسلام جو دین اسلام کی برکتوں سے امت مسلمہ کو ملی ہوئی روشن تاریخ و تہذیب کو مسخ کرنے پر تلے ہیں اور ان کے جال میں وہ لوگ بری طرح پھنستے جارہے ہیں۔ کتاب کی آخری فصل میں خوارج اور روافض کے بارے میں علمی و موضوعی تحقیق پیش کی گئی ہے، جس میں فرقہ خوارج کی حقیقت، ان کی تاریخی حیثیت، ان کی مذمت میں وارد شدہ احادیث نبویہ، حروراء میں ان کی علیحدگی، ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ان سے مناظرہ، امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا ان سے برتاؤ، ان سے لڑائی کے اسباب، پھر لڑائی کی تفصیل، ذی الثدیۃ یا مخدج کا واقعہ، علی رضی اللہ عنہ کے لشکر پر اس کے قتل کیے جانے کا اثر، جمل، صفین اور خوارج کی لڑائیوں میں علی رضی اللہ عنہ کے فقہی اجتہادات نیز یہ کہ بعد کے ادوار میں فقہاء نے ان اجتہادات پر کس طرح اعتماد کیا، اور انھیں ’’باغیوں سے متعلق فقہی احکام‘‘ کے نام سے اپنی کتب میں تحریر کیا ہے، ان تمام چیزوں کو میں نے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ خوارج کی دین میں مبالغہ آمیزی، دین سے جہالت، مسلمانوں کے امراء و حکام سے بغاوت، گناہ کبیرہ کے مرتکبین کی تکفیر اور مسلمانوں کے خون و مال کو حلال کرلینا، انھیں طعن و تشنیع کرنا،ان سے بدظنی رکھنا اور ان پر ظلم کرنا وغیرہ اوصاف ذمیمہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ معاً خوارج کے بعض عقائد مثلاً گناہ کبیرہ کے مرتکب مسلمانوں کی تکفیر، بعض صحابہ پر لعن و طعن اور عثمان و علی رضی اللہ عنہما کی تکفیر پر رد و قدح بھی کیا ہے۔ خوارج کے انحراف کے اسباب اور دور حاضر میں ان کے رجحانات و نظریات پر بحث کی ہے۔ علماء سے اعراض کی وجہ شرعی علوم سے جہالت و ناواقفیت، تقلید کی مذمت میں مبالغہ آرائی، علمائے کرام کا اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی برتنا، ظلم کا عام ہونا، شرعی قوانین کی جگہ وضعی قوانین کا نفاذ، فساد کا عام ہونا اور دلوں کا تزکیہ و تطہیر سے خالی ہونا نیز دین میں پختگی