کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 52
حُبُّ الصَّحَابَۃِ وَالْقَرَابَۃِ سُنَّۃٌ اَلْقَی بِہَا رَبِّي إذَا اَحْیَانِيْ
’’صحابہ اور (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قرابت داروں کی محبت صحیح طریقہ ہے، جب اللہ تعالیٰ بروز قیامت مجھے زندہ کرے گا میں اس محبت کے ساتھ اپنے رب سے ملوں گا۔‘‘
اور ایک جگہ کہتے ہیں:
إِنَّ الرَّوَافِضَ شَرُّ مَنْ وَطِیَٔ الْحَصَی مِنْ کُلِّ إِنْسٍ نَاطِقٍ أَوْ جَانِ
’’اس روئے زمین پر بسنے والے تمام انس و جن میں روافض سب سے برے ہیں۔‘‘
مَدَحُو النَّبِيَ وَ خَوَّنُوْا أَصْحَابَہُ وَ رَمَوْہُمْ بِالظَّلْمِ وَ الْعُدْوَانِ
’’انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی، اور آپ کے صحابہ کے حق میں خیانت کیا اور انھیں ظلم و سرکشی سے متہم کیا۔‘‘
حَبُّوْا قَرَابَتَہُ وَ سَبُّوا صَحْبَہُ جَدْلَانِ عِنْدَ اللّٰہِ مُنْتَقِصَانِ
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں سے محبت کی، اور آپ کے صحابہ کو گالیاں دیں، اللہ کی نگاہ میں دو متضاد چیزیں معیوب ہیں۔‘‘
فَکَأَنَّمَا آلُ النَّبِیِ وَ صَحْبُہُ رُوْحٌ یَضُمُّ جَمِیْعَہَا جَسَدَانِ
’’حالانکہ آل نبی اور آپ کے صحابہ سب دو جسم لیکن ایک جان ہیں۔‘‘
فِئَتَانِ عَقْدُہُمَا شَرِیْعَۃُ أَحْمَدَ بِأَبِيْ وَأُمِّيْ ذَانِکَ الْفِئتَانِ
’’دونوں ہی جماعتیں شریعت محمدی سے مربوط ہیں، ان دونوں جماعتوں پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘
فِئَتَانِ سَالِکَتَانِ فِيْ سُبُلِ الْہُدَی وَ ہُمَا بِدِیْنِ اللّٰہِ قَائِمَتَانِ
’’وہ دونوں جماعتیں ہدایت کے راستوں پر گامزن ہیں اور اللہ کے دین پر قائم ہیں۔‘‘
اسی طرح میں نے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدم بیعت، دونوں کے درمیان خط و کتابت، صلح کی کوششوں، لڑائی کے وقوع، کسی تیسرے کو فیصل مان لینے کی دعوت، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی شہادت، مسلمانوں پر اس کے اثرات، لڑائی کے دوران آمنے سامنے ہوجانے کے بعد فریقین کاایک دوسرے کے ساتھ بہتر برتاؤ، قیدیوں کے ساتھ رعایات، مقتولین کی تعداد، ان کے قتل پر علی رضی اللہ عنہ کا رنجیدہ ہونا اور رحمت کی دعا کرنا، معاویہ رضی اللہ عنہ اور شام والوں پر سب و شتم اور لعن و طعن کرنے والوں کو ڈانٹنا، پھر واقعہ تحکیم پر گفتگو کرتے ہوئے ابوموسیٰ اشعری اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی سوانح حیات پر روشنی ڈالی ہے اور واقعہ تحکیم میں مذکورہ دونوں صحابہ کی طرف منسوب جھوٹے واقعات اور من گھڑت روایات کو واضح کیا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ واقعہ تحکیم کو سامنے رکھ کر مسلم ممالک کو کس طرح اپنے اختلافات کو دور کرنا چاہئے، ان لڑائیوں کے بارے میں اہل سنت کے موقف کو واضح کرنے پر