کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 50
رکھنے کے چند اصولوں کو مستنبط کیا ہے، مثلاً آپ رضی اللہ عنہ نے انسانیت کے احترام، تجربہ اور علم کی برتری پر زور دیا ہے، حاکم اور رعایا کے درمیان خوشگوار تعلقات، جمود و تعطل کے ازالہ، چاق و چوبند نگرانی، حکومتی گرفت، قرارداد کی منظوری اور کارکنوں کے عمدہ انتخاب میں گورنروں کے ساتھ شرکت، سرکاری عمال و کارکناں کے لیے جانی ومالی ضمانت، تجربہ کار افراد کی رفاقت، آبائی منصب کے مفہوم، نیز یہ کہ ادارے اور نوکریاں اصولوں پر قائم رہتی ہیں نہ کہ شخصی تعلقات اور کسی کے رحم و کرم پر۔ مذکورہ تمام چیزوں کا آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اقوال میں خصوصی اہتمام کیا ہے۔ ان مباحث سے گزر کر میں نے ان داخلی مشکلات کی طرف توجہ دی ہے جو علی رضی اللہ عنہ کی عہد حکومت میں درپیش رہی ہیں، چنانچہ معرکۂ جمل اور اندرونی ملک کے داخلی فتنوں میں اگ لگانے اورانھیں ہوا دینے میں عبداللہ بن سبا اور اس کے سبائی گروہ کے سیاہ کردار اور اس کے برے اثرات کو ذکر کیا ہے، قاتلین عثمان سے قصاص لینے کے طریقہ میں صحابہ کے اختلاف، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، طلحہ، زبیر، معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم اور ان کی تائید کرنے والے دیگر افراد کا قاتلین عثمان سے جلد از جلد قصاص لینے کا موقف اور پھر سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عمر، محمد بن مسلمہ، ابوموسیٰ اشعری، عمران بن حصین، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم اور ان کے ہم خیال دیگر لوگ جنھوں نے اس فتنہ سے خود کو دور رکھا، ان باتوں کو بھی تحریر کیاہے، معاً اس فریق کے موقف کی بھی وضاحت کی ہے جس کا بشمولِ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا یہ خیال تھاکہ قاتلین عثمان پر قصاص کی تنفیذ کو حالات کے معمول پر آجانے تک کے لیے موخر کردیا جائے۔ معرکۂ جمل کی آگ بھڑکنے سے پہلے کی مصالحانہ کوششوں، لڑائی کی تفصیل، اس کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے خونی رَن، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کی شہادت، اہل بصرہ کی علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر بیعت، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کا موقف، نیز یہ کہ آپ رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا، یعنی انھیں محترم مانا، ان کی عزت و توقیر کی اور پورے احترام و اعزاز کے ساتھ انھیں مدینہ بھیج دیا، پھر ان کے کچھ فضائل اور سیرت پر میں نے ایک جھلک ڈالی ہے۔ میں نے زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما کی زندگی پر بھی خامہ فرسائی کی ہے، اس لیے کہ عہد نبوت، دور خلافت راشدہ اور خاص کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی دور حکومت میں بھی یہ لوگ معزز اور اثر و رسوخ والے تھے، تاریخ نے ان پر ظلم کیاہے، اس لیے میں نے جذبۂ حق پرستی سے ان کی طرف سے دفاع کیا ہے، ان کے مقام و مرتبہ اور فضیلت کو نقل کیاہے اور ٹھوس حقائق و ناقابل تردید دلائل کی روشنی میں ان اعتراضات اور افترا پردازیوں کا صفایا کیاہے، جنھیں ان بزرگ شخصیات کے سر مڑھ دیا گیا تھا، ان کی بلند صفات اور اخلاق کریمہ کو ایسے انداز میں میں نے ذکر کیا ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے حقیقت عیاں ہوجائے، اس میں کوئی پیچیدگی اور ملاوٹ نہ ہو، اور وہ ضعیف روایات اور روافض مؤرخین کے من گھڑت قصوں سے قطعاً متاثر نہ ہو کر جن کے عام چلن نے ان عظیم شخصیات کے روشن چہروں کو لوگوں کی نگاہوں میں داغ دار کردیا ہے۔