کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 49
ورع، جود و کرم، حیا و عفت، صبر و عبودیت، شکر و اخلاص اور دعا و تضرع کی تابندہ مثالیں پیش کی ہیں۔ آپ کی حکومت کی اساس کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور پیش رو خلفائے راشدین کی اقتداء پر قائم تھی۔ آپ نے رعایا کے حقوق کی مکمل حفاظت کے لیے اپنے ماتحت حکام کی نگرانی کی، شورائیت، عدل و مساوات اور آزادی کی صحیح تعبیر کو زندہ رکھا۔
آپ کی معاشرتی زندگی، فریضۂ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادائیگی کا اہتمام، توحید کی دعوت، شرک سے جنگ، انسانوں کے درمیان اللہ کے اسمائے حسنیٰ، بلند و بالا صفات کا جامع تعارف، اللہ کی بے شمار نعمتوں کی شکر گزاری ، آثار جاہلیت کو مٹا دینے کی تڑپ، ستارہ پرستی کے باطل عقائد کی تکذیب، اپنی ذات کے بارے میں مبالغہ کرنے اور الوہیت کا درجہ دینے والوں کو نذر آتش کر دینا، دل میں ایمان کی نشوونما، تقویٰ کی تعریف، قضاء و قدر کا مفہوم اور یہ کہ انسانوں کی اتنی بھاری تعداد کا اللہ تعالیٰ کیسے محاسبہ کرے گا، آپ کے خطبات اور موقع بہ موقع وعظ و نصائح کی باتیں، آپ کی طرف منسوب شدہ اشعار، وہ اقوال زریں جو ضرب المثل بن چکے ہیں، نیک وبہترین انسانی صفات کی نشان دہی، آپ کی زبان مبارک سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کا بیان، صحابہ کے اوصاف بے مثال، وہ مہلک امراض جو دلوں کو لاحق ہوتے ہیں ہیں، مثلاً لمبی امیدیں، بری خواہشات کی پیروی، ریاء و نمود، خود پسندی و غرور، بازاروں کی اصلاح کی کوشش، بدعات اور خلاف شرع کاموں سے لڑائی اور اس طرح کے دیگر عناوین کا میں نے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ کی دور حکومت کے مختلف سرکاری محکمہ جات مثلاً وزارت مالیات، وزارت عدل، ادارۂ امراء وحکام، اور خلفائے راشدین کے عہد میں قانون سازی و نظام عدل کی منصوبہ بندی، وہ مصادر جن پر صحابہ نے اس دور میں اعتماد کیا، خلافت راشدہ کے نظام عدل و قضاء کی خصوصیات، عہد علی رضی اللہ عنہ کے مشہور قاضی حضرات خود آپ کے قضاء کا اسلوب، اور اپنے ماقبل خلفاء کے فیصلہ پر نظر، منصب قضاء کی اہلیت رکھنے والے افراد کی شناخت، عبادات، مالی معاملات، حدود، قصاص اور جرائم کے مسائل میں فقہی اجتہادات پر بھی میں نے گفتگو کی ہے۔ اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ صحابہ اور بالخصوص خلفائے راشدین کے اقوال حجت ہیں یا نہیں، دوران گفتگو امراء و حکام کے مستقل ادارے، اسلامی سلطنت کی ریاستیں اور تمام ریاستوں میں عظیم ترین کارناموں کا وقوع، گورنروں کی تقرری میں آپ رضی اللہ عنہ کا طرز عمل، ان کی نگرانی، رہنمائی اور ان کے اختیارات مثلاً ہر ریاست میں گورنر کو اس بات کی اجازت کہ وہ خود وزراء کو منتخب کرسکتا ہے، مجلس شوریٰ کی تشکیل، ہر ریاست میں افواج کی تشکیل، جنگ اور صلح کے میدان میں خارجی سیاست، اندرون ملک امن و سلامتی کی حفاظت، عدل و قضائ، مالی اخراجات اور گورنران ریاست وغیرہ کی منظم ترتیب، پھر ریاستی نظام حکومت کو مستحکم بنانے میں قبائلی قائدین اور جماعتی پیشواؤں کے کردار کو میں نے ذکر کیا ہے۔
اسی طرح میں نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے اقوال کی روشنی میں اداروں اور محکموں کے نظم و نسق کو بہترو برقرار