کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 48
خلفاء کی محبت، احترام اور عقیدت کے آئینہ دار اور سب و شتم کرنے والوں سے براء ت، شیخین کو برا بھلا کہنے والوں پر حد شرعی کے نفاذ کے متقاضی ہیں۔
جو مسلمان ان اقوال کا بغور مطالعہ کرے گا اور اس گروہ ربانی کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کے حسن برتاؤ کا جائزہ لے گا شاید وہ اپنے دل پر قابو نہ پاسکے اور اس کی آنکھوں سے احترام و عقیدت کے آنسو نکل پڑیں۔ شاعر کہتا ہے:
وَ مِنْ عَجَبٍ أَ نِّي أحِنُّ إلیْہِمْ وَ أَسْأَلُ عَنْہُمْ مَنْ لَقِیْتُ وَ ہُم مَعِيْ
’’میں ان (نفوس) کا مشتاق ہوں، اور کسی سے بھی ملتا ہوں تو شوق و اضطراب سے ان کے بارے میں پوچھتا ہوں، حالانکہ وہ میرے ساتھ ہوتے ہیں۔‘‘
وَ تَطْلُبُہُمْ عَیْنِیْ وَ ہُمْ فِیْ سَوَادِہَا وَ یَشْتَاقُہُمْ قَلْبِيْ وَہُمْ بَیْنَ أضْلُعِيْ
’’میری آنکھ ان کو ڈھونڈتی پھر رہی ہے، حالانکہ وہ اس کی سیاہی میں موجود ہوتے ہیں، اور میرا دل ان کا مشتاق ہے، حالانکہ وہ میرے سینے میں ہوتے ہیں۔‘‘
دوسرا شاعر کہتا ہے:
إِنِّيْ أُحِبُّ أَبَا حَفْصٍ وَ شِیْعَتِہٖ کَمَا اُحِبُّ عَتِیْقًا صَاحِبَ الْغَارِ
’’میں ابوحفص (عمر رضی اللہ عنہ ) اور ان کے محبان کو دل سے چاہتا ہوں، جیسا کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے) رفیق غار عتیق (ابوبکر رضی اللہ عنہ ) سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
وَ قَدْ رَضِیْتُ عَلِیَّا قُدْوَۃً عِلْمًا وَ مَا رَضِیْتُ بِقَتْلِ الشَّیْخِ فِی الدَّارِ
’’اور بلاشبہ میں علی رضی اللہ عنہ کو رہبر و عالم مان کر بہت خوش ہوں، جب کہ اندرون خانہ شیخ (عثمان رضی اللہ عنہ ) کے قتل سے میں ہرگز خوش نہیں۔‘‘
کُلُّ الصَّحَابَۃِ سَادَاتِيْ وَ مُعْتَقِدِيْ فَہَلْ عَلَيَّ بِہٰذَا الْقَوْلِ مِنْ عَارِ
’’تمام ہی صحابہ میرے بزرگ اور میری عقیدت کے مستحق ہیں اور یہ بات کہتے ہوئے مجھے کوئی عار نہیں محسوس ہو رہی۔‘‘
اسی طرح میں نے خلافت علی کی بیعت پر گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ کس طرح مکمل ہوئی؟ نیز یہ کہ آپ ہی اس کے زیادہ مستحق تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر اجماع تھا، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے بغیر کسی دباؤ اور مجبوری کے آپ کی بیعت وخلافت کو تسلیم کیا تھا، آپ کی خلافت پر اجماع ہے، ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ میں نے علی رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ بیعت خلافت کی شرائط، آپ کی خلافت کا پہلا خطبہ، اس دور کے اہل حل و عقد، آپ کے فضائل اور اہم اوصاف حمیدہ کے نمونے اور نظام حکومت کے اصول و قواعد کو بھی ذکر کیا ہے۔
البتہ آپ کے اوصاف حمیدہ کو ذرا تفصیل سے بیان کیاہے، چنانچہ آپ کے علم کی وسعت، فقہ کی گہرائی، زہد و