کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 47
آمد اور آیت مباہلہ کا نزول۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کو یمن کا قاضی اور مبلغ بنا کر بھیجنا۔ یمن میں بحیثیت قاضی آپ کے فیصلے، حجۃ الوداع کے موقع پر احرام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت، اس تحریر کا واقعہ جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرض الموت میں لکھوانا چاہتے تھے، خلفائے راشدین سے آپ کے مخلصانہ تعلقات اور خلافت راشدہ کے طویل دور حکومت میں آپ کے اثر ورسوخ کے بیان پر یہ کتاب مشتمل ہے۔
چنانچہ میں نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر آپ نے بیعت کی، ارتداد کی جنگ میں خلیفہ اول کا آپ نے پورا پورا ساتھ دیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدق دل سے ہر چیز میں اپنے اوپر ترجیح دی، انھیں اپنے سے افضل سمجھا، ان کے پیچھے نمازیں پڑھیں، ان کے ہدایا و تحائف قبول کیے۔ اور ضمناً اس بات کی طرف بھی میں نے اشارہ کیا ہے کہ ابوبکر صدیق اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے درمیان اسلامی عقیدت و ہمدردی کے گہرے تعلقات تھے، میراث نبوی کی حقیقت کی نقاب کشائی بھی کی ہے اور اس سے متعلق رافضیوں کے شکوک و شبہات کی تردید بھی کی ہے، قطعی صاف و شفاف اور واضح دلائل کی روشنی میں ان کے جھوٹے اور کمزور دلائل کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ ان کی ضعیف اور موضوع روایات کا پردہ چاک کیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حق کی پرستار، شریعت کی پابند، خلیفۂ رسول ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قدر واحترام کی نگاہ سے دیکھنے والی، ان کے ساتھ نرم رویہ اپنانے والی، ایک عظیم المرتبت خاتون تھیں۔ اسی طرح اہل بیت کے تمام افراد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے والہانہ محبت رکھتے تھے، دونوں خاندانوں کے درمیان جو سسرالی رشتے تھے انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ محبت کاعالم یہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھتے تھے۔
دور صدیقی کے بعد عہد فاروقی میں قضاء اور مالی و اداری امور میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شرکت و تعاون پر میں نے گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے متعدد بار علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا، جہاد اور دیگر ملکی معاملات میں آپ سے مشاورت کی۔ ان دونوں کے درمیان مضبوط قلبی تعلقات تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب سے شادی کی، اس بابرکت شادی کے واقعہ کی حقیقی شکل ذکر کرنے کے ساتھ ہی میں نے ان ناقابل تردید دلائل اور واضح حقائق کا بھی ذکر کردیا ہے، جن سے اس مسئلہ کی طرف منسوب کردہ جھوٹ کی بنیادیں ہی جڑ سے اکھڑ جاتی ہیں، اس طرح پورے واقعہ کو بالکل صاف و شفاف شکل میں پیش کردیا اور صرف ان تاریخی حقائق پر اعتماد کیاہے جو قرآن کی توضیح کے مطابق صحابۂ کرام کے درمیان آپسی میل محبت کی تصویرکشی کرتے ہیں۔
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت، اس سے متعلق افتراپردازیوں اور خلافت عثمانی کو سنبھالا دینے، ان کے خلاف شورش کو فرو کرنے، شہادت عثمان کے جانکاہ حادثہ کی ابتداء ، دوران محاصرہ اور شہادت کے بعد آپ کے مواقف، نیز آل علی اور آل عثمان کے درمیان سسرالی رشتوں کی پوری وضاحت کے ساتھ ساتھ میں نے علی رضی اللہ عنہ کے ان اقوال کو ذکر کیا ہے جو آپ نے اپنے پیش رو خلفاء کی منقبت میں کہے ہیں، ایسے اقوال کہ جو