کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 46
قرآنی تصور حیات، زندگی پر اس کے اثرات اور اللہ کی ذات، کائنات، دنیوی زندگی، جنت، جہنم اور قضاء و قدر کے بارے میں آپ کے عقائد و تصورات سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے، اسی طرح یہ کتاب بتائے گی کہ آپ کے دل میں قرآن کی کتنی عظمت تھی اور آپ کے بارے میں کون کون سی آیات نازل ہوئیں، قرآن کریم سے احکام مستنبط کرنے اور اس کے معانی سمجھنے میں آپ نے کن اصولوں اور ضوابط کو معیار بنایا، قرآنی آیات کی آپ نے کیا تفسیر فرمائی ہے۔ نیز یہ کہ آپ عہد طفولت ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور آپ کو مقام نبوت کی گہری معرفت حاصل رہی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ساتھ کیا عمدہ برتاؤ کیا۔
چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے اقوال و افعال کے تابندہ نقوش چھوڑے ہیں، آپ ہمیشہ کوشاں رہے کہ لوگوں کو دین سکھائیں، انھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات کا پابند بنائیں۔
آپ نے صاف صاف واضح بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب ہے، آپ کی سنت کو لازم پکڑنا، اور اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل نبوت، آپ کی فضیلت اور امت پر آپ کے بعض حقوق کوواضح کیا۔
اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا بخوبی محسوس کرے گا کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سنت نبوی کی اتباع کے کس قدر شیدائی تھے۔ یہ کتاب صحابہ، تابعین اور اہل بیت کے ان افراد کی بھی نشان دہی کرتی ہے، جنھوں نے علی رضی اللہ عنہ سے روایات نقل کی ہیں اور پھر پڑھنے والے کو امیر المومنین کی زندگی کے ان ایام کی سیر کراتی ہے جو آپ نے مدینہ میں رہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزارے، چنانچہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے آپ کی شادی اور شادی میں دیا گیا مہر، ساز و سامان، پھر فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی، زہد و قناعت، زندگی کے نشیب و فراز، اخلاص و وفا کی صداقت اور دنیا و آخرت میں ان کی سیادت و پیشوائی کی روشنی میں مستنبط ہونے والی عبرت و موعظت کی باتیں بھی ہیں۔
اس کتاب میں میں نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی زندگی کا بھی مختصر خاکہ پیش کیا ہے، ان دونوں کی فضیلت، احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کا مقام و مرتبہ، اہل سنت و جماعت کے نزدیک اہل بیت کا مفہوم اور ان سے متعلقہ احکام مثلاً ان کے لیے مال زکوٰۃ کی حرمت، میراثِ رسول میں عدم وراثت، اموال غنیمت و فے[1] میں حق خمس کے ثبوت، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان پر ترحم، اور ان کی محبت و احترام کے وجوب کو بیان کیا ہے، اور واضح کیا ہے کہ سرایا و غزوات [2]نبوی جیسے بدر، احد، خندق، بنوقریظہ، حدیبیہ، خیبر، فتح مکہ اور غزوۂ حنین میں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا کیا موقف رہا، نیز یہ کہ غزوۂ تبوک9ھ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابِ علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا
جانشین بنایا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امارت میں حج کے موقع پر علی رضی اللہ عنہ کا اہم میڈیائی کردار، نجران کے نصاریٰ کے وفد کی
[1] مال غنیمت اس مال کو کہتے ہیں جو کفار سے جنگ کے نتیجہ میں حاصل ہو اور مالِ فے اس مال کو کہتے ہیں جو بغیر جنگ کیے کفار سے حاصل ہو۔ (مترجم)
[2] غزوہ اس جنگی مہم کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود شرکت فرمائی ہو اور سریہ اس جنگی مہم کو کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت نہ کی بلکہ صحابہ کو روانہ کیا ہے۔ (مترجم)