کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 43
ابن سبا اور ذوالخویصرہ کے پیروکاروں کو تاریخ روافض و خوارج کے القابات سے جانتی ہے۔ ان فاسق و فاجر لوگو ں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کرہمیشہ اسلام کی جڑیں کاٹیں، اسلام کے نام پر بہت سی جھوٹی اور من گھڑت روایات دین میں شامل کر دیں، مسلمانوں کو گروہوں میں تقسیم کر کے باہم جنگوں کا سبب بنے۔عقیدہ امامت اور الوہیت کا عقیدہ انہیں کی پیداوار ہے۔محمد بن سائب کلبی جو ابن سبا کا ساتھی تھا ، کا عقیدہ تھا کہ ’’سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات نہیںہوئی، وہ قیامت سے پہلے لوٹیں گے…یہ لوگ جب کوئی بدلی دیکھتے تو کہتے کہ اس میں امیر المؤمنین ہیں۔‘‘ (المجروحين من المحدثين، ابو حاتم: 2/253) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ جہلاء، گمراہ اور اقوال و افعال کے بدبخت لوگ اس بات پر متفق ہوگئے کہ مسلمانوں کے مابین ہر وقت آگ بھڑکتی رہے۔معرکہ جمل و صفین انہیں کی پیداوار تھی۔مسلمانوں میں جنگیں بپا کرنے کے ساتھ ساتھ عقائد کی ایسی جنگ کی بنیاد رکھی جس میں اُمت آج تک کود رہی ہے۔یہ مخصوص فکر و عقیدہ کی حامل جماعتیں اچانک ظہور پذیر نہیں ہوئیں۔ کئی ارتقائی ادوار سے گزر ی ہیں۔ ان کے اساسی نظریات سبائیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیشہ سے صحابہ کرام ، اہل بیت، مسلم خلفاء، مسلم حکومتوں اور ان کے قاضی ، ائمہ دین ، ائمۃ المسلمین کی تکفیران کا وطیرہ رہا ہے۔ خلفائے راشدین کے خلاف محاذ آرائیاں، مناظرے، ناسمجھ مسلمانوں کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا کر کے جنگوں کے لیے تیاری کروانا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ خاص طور سے سیّدنا عثمان اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہما کے ادوارِ حکومت میں ان کی چالبازیاں اور فتنہ پردازیاں عروج پر تھیں۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نرم و فیاض طبیعت سے انہوں نے بہت فائدہ اُٹھایا اور اپنے آپ کو منظم گروہوں کی شکل میں تبدیل کر لیا۔ آپ کی شہادت بھی انہی کا کیا دھرا ہے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں ان سے کئی معرکے ہوئے جن میں نہروان کا معرکہ اہم ہے۔ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح فرمان کے مطابق خوارج سے قتال کیا تھا، اس پر شاداں و نازاں تھے اور صحابہ میں سے کسی نے اس میں آپ کی مخالفت نہ کی، جب کہ جنگ صفین میں اس جنگ کے تئیں آپ نے خود اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اور اس پر ہمیشہ رنجیدہ رہے۔اسلامی تاریخ کے مؤرخین، نیز فرقوں اور عقائد کے مؤلفین کا بیان ہے کہ جب ابن سبا نے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو ربوبیت سے متصف کیا تو آپ نے اسے اور اس کے معتقدین کو آگ میں جلا دیا۔ ایک وقت آیا کہ اس گروہ نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ابن ملجم، بُرَک بن عبداللہ، اور عمرو بن بکر تمیمی ایک جگہ جمع ہوئے، پھر ملکی حالات پر گفت و شنیدکی، اپنے حکمرانوں پر عیب لگایا۔ ابن ملجم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو ، بُرَک بن عبداللہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو اور عمرو بن بکر تمیمی نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا ایک دوسرے سے عہد اور قسمیں لیں۔ ابن ملجم حملہ کے وقت پکڑا گیا اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعداسے قتل کر دیا گیا۔شہادت کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔ آپ کی قبر سے متعلق متعدد اقوال ہونے کی وجہ سے درست جگہ کا معلوم نہیں، البتہ نجف میں موجودہ قبر عباسی عہد حکومت کے رافضی حکمران بنو بویہ کی ایجاد ہے۔ آپ کی شہادت پر