کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 42
اصرار پر آپ نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ آپ کے منصب خلافت پر براجمان ہونے کے ساتھ فتنے بھی سر اُٹھائے ہوئے تھے جو سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت اور بعد کے حوادث کے نتیجہ میں ظاہر ہوئے۔ ان حوادث سے مسلمان انتشارکا شکار ہو گئے۔ ان انتشارو حوادث کو سمیٹنا آپ کی خلافت کی اہم مصروفیات تھیں۔ مگر یہ حوادث آپ کو عدل و انصاف کا اہتمام اور اسے منظم کرنے سے نہ روک سکے۔ ان میں معرکہ جمل و صفین بہت بڑا حادثہ تھا، اور اس معرکہ کی آگ کو بھڑکانے والے ابن سبا اور اس کے فاسق و فاجر پیروکارتھے ، نیز اس دور میں روافض و خوارج بہت زور پکڑ چکے تھے۔
عبداللہ بن سبا صنعاء کا ایک یہودی باشندہ تھا۔ اس کی ماں کا نام سوداء تھا، سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ظاہری اسلام لایا، پھر مسلمانوں کے شہروں میں انھیں گمراہ کرنے کے لیے گھومنے لگا، پہلے حجاز، بصرہ، کوفہ، پھر شام گیا۔ اہل شام میں اسے کہیں کوئی کامیابی نہ ملی، انھوں نے اسے بھگا دیا، پھر مصر پہنچا، اور وہیں سکونت اختیار کرلی۔عقیدۂ رجعت ، نبیوں کاوصی ہونے کی غلط تشریح، عقیدۂ الوہیت، عقیدۂ امامت کا یہی موجد اعلیٰ ہے۔ اس کے پیرو کاروں نے بعد میں اسے خیالی شخصیت ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگایا تاکہ تمام فتنوں کا منبع ابن سبا کی بجائے صحابہ کرام کو قرار دیا جا سکے۔ اس کے حقیقی ہونے کا ثبوت اہل سنت والجماعت کی کتب کے علاوہ شیعی کتب میں بھی ملتا ہے۔جیسا کہ ایک شیعہ عالم الکشی روایت بیان کرتا ہے کہ ابان بن عثمان نے ابو عبداللہ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’عبداللہ بن سباء پر اللہ کی لعنت ہو، اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعویٰ کیا۔ اللہ کی قسم! امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اللہ کے اطاعت شعار بند ے تھے، بربادی ہو اس کی جس نے ہم پر جھوٹ باندھا، ایک جماعت ایسی ہے جو ہمارے بارے میں ایسی باتیں کہتی ہے جسے ہم سوچتے بھی نہیں، اس سے ہم اللہ کے یہاں اپنی برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ ‘‘(رجال الکشی :1/ 324۔یہ ر وایت شیعوں کے نزدیک سنداً بالکل صحیح ہے۔ دیکھئے: عبداللّٰہ بن سباء الحقیقۃ المجہولۃ للشیعہ / محمد علی المعلم، ص :30)
شیعی مؤرخ القمی نے ’’کتاب الخصال‘‘ میں اسی روایت کو دوسری موصول سند سے نقل کیا ہے۔ اسی طرح ’’روضات الجنات‘‘کے مؤلف نے ابن سبا کا ذکر صادق ومصدوق امام ہی کی زبان میں کیا ہے، جس میں انھو ں نے ابن سبا کے متہم بالکذب ہونے بلکہ جھوٹ بکنے اور راز کی باتوں اور تاویلات عام کرنے کی وجہ سے اس پر لعنت بھیجی ہے۔
’’ذوالخویصرہ تمیمی‘‘پہلا خارجی تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مال کی تقسیم کر رہے تھے تو اس نے آپ کی رائے پر اپنی رائے دی اور کہا: ((إِعْدل یا محمد!)) ’’اے محمد! انصاف کرو۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی، لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ لوگ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے‘‘ راوی کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’اگر میں ان کے دور میں ہوا تو قوم ثمود کی طرح ان کو قتل کروں گا۔‘‘