کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 346
اور علمائے دین کو علم کے مطابق عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے اور اللہ کی راہ میں مصائب و مشکلات پر صبر کرنے کی دعوت دی ہے۔
9۔ علماء کے حقوق امت پر:
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عالم کا حق یہ ہے کہ اس سے زیادہ سوالات نہ کرو، جواب دینے کے لیے زور و زبردستی نہ کرو، تھکاوٹ کے وقت اس کے پاس نہ جاؤ، جب وہ اٹھ کر جانے لگے تو کپڑا کھینچ کر نہ بیٹھاؤ، اس کا راز فاش نہ کرو، اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرو، اس کی غلطیوں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو، اگر لغزش کرجائے تو اس کی معذرت قبول کرلو اور جب تک وہ اللہ کے حکم کی حفاظت کرتا ہے، اللہ کی رضا کے لیے اس کی عزت و احترام کرو، اس کے سامنے نہ بیٹھو، اگر اسے کوئی ضرورت درپیش ہو تو اس کی خدمت کے لیے سب سے پیش پیش رہو۔[1]
10۔ عالم باعمل کا مقام اللہ کے نزدیک:
امیر المومنین فرماتے ہیں کہ ’’جس نے علم حاصل کیا اور عمل کیا، آسمانوں کی مخلوق میں ایک معزز شخصیت کی حیثیت سے مدعو کیا جائے گا۔‘‘[2] اس نصیحت میں علم کے ساتھ عمل کی دعوت ہے اور ان بلند مقامات کے لیے سعی پیہم کی ترغیب ہے جس سے اللہ نے علماء عاملین کو مکرم ومشرف کیا ہے۔
11۔ علم کی مشغولیت نفلی عبادات سے افضل ہے:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ایک عالم، روزہ دار، تہجد گزار اور مجاہد سے افضل ہے، جب کوئی عالم وفات پاجاتا ہے تو اسلام کی دیوار میں ایک شگاف پڑجاتا ہے جو اسی جیسے عالم کے آنے کے بعد ہی پُر ہوتا ہے۔‘‘[3]
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس توجیہ و رہنمائی میں یہ دلیل ہے کہ آپ کے نزدیک اہمیت کے اعتبار سے اولویّات میں ترتیب ملحوظ ہوا کرتی تھی، اسی لیے آپ کا خیال تھا کہ جس عمل کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچ رہا ہو اسے ایسے عمل پر مقدم کرنا، زیادہ مناسب ہے جس کا فائدہ صرف ایک شخص کی ذات تک محدود ہو، چونکہ علم کی افادیت عام ہے اور نفلی عبادت ایک شخص کی ذات تک خاص ہے، لہٰذا علم عبادت پر مقدم ہے۔ یہ تھیں چند نفع بخش توجیہات اور نیک رہنمائیاں جنھیں امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے طالبان علوم نبوت کے لیے پیش کیا۔
امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا زہد و ورع
قرآن کے زیرسایہ، نبی کے زیرتربیت، صحابہ سے مصاحبت اور دنیوی زندگی کے شب و روز پر غور و تدبر کرتے کرتے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا کہ دنیا صرف امتحان و آزمائش کا گھر ہے۔ آپ نے قرآنی تربیت پائی تھی، اس کی جو آیات دنیا، اس کی حقارت، بے ثباتی، بے وفائی اور فنا پر دلالت کرتی تھیں اور
[1] جامع بیان العلم و فضلہ (1/519)۔
[2] جامع بیان العلم و فضلہ (1/497)۔
[3] المتجر الرابح فی ثواب العمل والصالح / الدمیاطی ص (13)۔