کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 345
جائیں، اللہ اور اس کے رسول سے مراد ومقاصد کو تلاش کریں، دین حق کے تقاضوں کو ڈھونڈیں اور انھیں پورا کریں، اگرچہ اس راستہ میں مال، اولاد اور دنیوی مناصب کی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے، اس لیے کہ اس کا جو اجر اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ قرآن کے مواعظ سے عبرت پکڑنا اور اس سے ایمان کو زندگی بخشنا اسی وقت ممکن ہے جب قرآن کے معانی ومطالب پر غور کیا جائے گا۔[1] 4۔ اتنی اچھی بات کہ کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے: امام شعبی علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ایک دن ان کے پاس آئے اور وہ یہ فرما رہے تھے: کتنی اچھی بات ہے کہ کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے، لوگوں نے پوچھا: کون سی بات؟ آپ نے فرمایا: جس چیز کا تمھیں علم نہ ہو اس کے بارے میں کہہ دو ’’اللہ اعلم‘‘[2]یعنی اللہ زیادہ جانتا ہے۔‘‘ 5۔ تعلیم و تعلّم: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جس طرح جاہلوں سے اللہ نے عہد لیا کہ علم حاصل کریں، اسی طرح عالموں سے عہد لیا کہ دوسروں کو علم سکھائیں۔‘‘[3] 6۔ بھلائی علم کی زیادتی میں ہے نہ کہ مال اور اولاد میں: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’بھلائی اس میں نہیں ہے کہ تمھارے پاس کثرت سے مال اور اولاد ہوجائیں، بلکہ بھلائی اس میں ہے کہ تمھارے پاس علم کی کثرت ہوجائے۔ بردباری میں اضافہ ہوجائے، رب کی عبادت کے ذریعہ سے برتری کا اظہار ہو، اگر اچھائی کرو تو اللہ کا شکر ادا کرو اور اگر برائی کرو تو اللہ سے استغفار کرو، دنیا میں دو کے علاوہ کسی کے لیے بھلائی نہیں ہے، ایک وہ آدمی جس نے گناہ کیا اور اس کے فورًا بعد ہی توبہ کرلی، دوسرا وہ آدمی جو نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، جس عمل میں تقویٰ شامل ہو کم نہیں ہوتا اور وہ چیز کم ہی کیوں ہوسکتی ہے جو قبول کرلی جائے۔[4] 7۔ علم اور جہالت: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’علم کی عظمت و شرف کے لیے یہی کافی ہے کہ جو اسے اچھی طرح نہیں پاتا وہ بھی اس کا دعویٰ دار ہے اور جب اسے علم والا کہا جائے تو خوش ہوتا ہے اور جہالت کی کمتری و ناقدری کے لیے یہی کافی ہے جو جاہل ہے وہ بھی جہالت سے بے زار ہے، اگر اسے جاہل کہہ دیا جائے تو ناراض ہوجاتا ہے۔‘‘[5] 8۔ لوگوں کی علم بیزاری کا سبب: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لوگ طلب علم سے اس لیے بے زار ہوئے کہ انھوں نے دیکھا علماء اپنے علم سے بہت کم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘[6] اس نصیحت میں آپ نے علمائے سوء کو ڈرایا ہے جو کہ اللہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں
[1] التاریخ الإسلامی (12/431، 433)۔ [2] جامع بیان العلم و فضلہ (2/66)۔ [3] فرائد الکلام ص (361)۔ [4] حلیۃ الاولیاء ص (75)۔ [5] فرائد الکلام ص (366)۔ [6] أدب الدین و الدنیا ص (82، 85)۔