کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 344
ان کی موت کے ساتھ ہی اس دنیا سے فنا ہوگئے، اور بعض اوقات ایسے لوگ دنیا ہی میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی شہرت کا چراغ گل ہوتا ہوئے دیکھتے ہیں۔ [1] 3۔ دینی فقہ و بصیرت کی حقیقت: بے شک کامل فقیہ اسے کہتے ہیں جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرے، انھیں اللہ کے عذاب سے بے خوف نہ رکھے، انھیں معصیت کے لیے چھوٹ نہ دے، قرآن سے بے رغبتی نہ ہو، ایسی عبادات میں کوئی بھلائی نہیں جو علم سے خالی ہو اور اس علم میں کوئی خیر نہیں جو فہم سے خالی ہو اور اس تلاوت میں کوئی خیر نہیں جو تدبر سے خالی ہو۔[2] ان ناصحانہ کلمات میں علی رضی اللہ عنہ واضح کررہے ہیں کہ دینی فقہ و بصیرت کی علامت یہ ہے کہ دین کی تبلیغ اور امت کی اصلاحی کوششوں میں اعتدال و توازن ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ داعیٔ اسلام خوف و رجاء کی تلقین کرتے ہوئے درمیانی راہ پر چلے، اللہ کے عذاب و عقاب کی باتیں کرے تو اس حد تک نہ جائے کہ لوگ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے لگیں، اور جب ترغیب و بخشش کی باتیں کرے تو اس حد تک نہ جائے کہ لوگ عذاب الٰہی سے خود کو مامون سمجھنے لگیں۔ مذکورہ عبارت میں علی رضی اللہ عنہ یہ واضح کر رہے ہیں کہ عالم دین گناہوں کو اتنے ہلکے پھلکے انداز میں نہ بیان کرے کہ لوگ اسے کرنے میں بے باک ہوجائیں، بلکہ ایمان و تقویٰ کی عظمت و وقار کو لوگوں کے سامنے پیش کرے، اور کوشش کرتا رہے کہ انھیں بلندیٔ کمال تک لے جائے، اسی طرح آپ صاف صاف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عالم دین و مصلح امت پر یہ فرض ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کی کتاب سے جوڑے، پھر آپ نے قرآن مجید کی اہمیت، اور ہر چیز پر اس کی مطلق فوقیت کو نمایاں کیا ہے، گویا ہمیں بتارہے ہیں کہ قرآن کریم کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیسا ہونا چاہیے، اس سے اعراض کرکے کسی دوسری چیز کا سہارا نہ ڈھونڈیں، اس لیے کہ ہدایت کا اوّلین وکامل مصدر وہی ہے، اور چونکہ سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تفصیل و توضیح ہے تو قرآن کی طرف رہنمائی گویا حدیث کی طرف بھی رہنمائی ہے۔پھر آپ نے فرمایا کہ عبادات کی قبولیت کے لیے سب سے اہم شرط یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت کے علم کی روشنی میں انجام پائے اور وہ علم بھی فہم صحیح پر مبنی ہو۔ علی رضی اللہ عنہ نصیحت کا اختتام کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تلاوت قرآن کے وقت اس کے معانی و مفاہیم پر غور کیا جائے، کیونکہ اسلامی احکامات پر عمل کرنے اور تلاوت قرآن کے وقت دل، دماغ، روح غرض یہ کہ سرتاپا اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تقاضوں اور مقاصد کو اچھی طرح سمجھا جائے، اسی میں ہر بھلائی کا راز مضمر ہے۔ کس آیت میں اللہ کی کیا مراد ہے؟ اس کے احکامات کی بجاآوری اور محرمات سے اجتناب کیسے ممکن ہے؟ ہمارے اعمال اور کتاب الٰہی کے درمیان کون سی رکاوٹیں حائل ہیں؟ انھیں کیسے دور کیا جائے؟ یہ تمام باتیں ہمیں احساس دلاتی ہیں اور دعوت دیتی ہیں کہ ہم سرتاپا اللہ اور اس کے دین کے لیے وقف ہو
[1] التاریخ الإسلامی / حمیدی (12/443)۔ [2] حلیۃ الأولیاء (1/77) صفۃ الصفوۃ (1/325)۔