کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 343
ب:…علم بڑھتا ہے اور عمل سے مضبوط ہوتاہے: چونکہ عمل ہی سے علم کی تطبیق و تنفیذ ہوتی ہے، اس لیے عمل میں جتنی ہی مضبوطی اورپختگی ہوگی علم و حافظہ میں اتنی ہی گہرائی اور پختگی ہوگی۔ اس کے برخلاف مال جتنا ہی خرچ ہوگا گھٹتا جائے گا۔ واضح رہے کہ ہماری گفتگو اس مال کے بارے میں ہو رہی ہے جو خالص دنیاداروں کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اسے خالص دنیا ہی کے لیے خرچ کیا جاتا ہے، وہ مال اس سے مستثنیٰ ہے جو آخرت والوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ مال، حاکم نہیں ہے بلکہ محکوم ہے، اس پر عمل شرعی کی حکومت اور اس میں جتنا ہی خرچ کیا جائے گا اضافہ ہوتا جائے گا، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((ما نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَّالٍ))[1] ’’کسی بندہ کا مال صدقہ کرنے سے کم نہیں ہوا۔‘‘ ج:…شرعي علم بمنزلہ حاکم ہے: اس لیے کہ اسی سے زندگی کے شب و روز میں تنظیم و شائستگی آتی ہے ، اسی کے بتائے ہوئے اصول و منہج پر تمام تر انسانی نظام و قوانین کو مرتب کرنا ضروری ہے، وہی حقیقی حاکم ہے، جب کہ مال ہمہ وقت محکوم ہے، اس کی درآمدگی و برآمدگی نظام و قوانین کی پابند ہے، وہ قوانین شرعی ہوں یا غیر شرعی۔[2] د:…جو معاشرتي تعلقات مشترکہ مالي مصلحتوں کي اساس پر قائم ہوں، وہ مال ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتے ہیں: اس لیے کہ جب مفاد و مصالح کے تبادلوں کے لیے مال ہی تعلقات کی بنیاد بنا تو جب مال ختم ہوجائے گا تو تعلقات بھی ختم ہوجائیں گے، اور وہ برادرانہ تعلقات جن کی بنیاد علم شرعی کے تبادلوں پر قائم ہو، دنیا و آخرت میں باقی رہتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ ﴿٦٧﴾ (الزخرف:67) ’’اس دن (گہرے) دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔‘‘ ھ:…شریعت کا علم، عالم دین کو مسلمانوں کي نگاہوں میں محبوب و معزز بنا دیتا ہے: مسلمان خوشی خوشی احترام سے ان کی باتیں مانتے ہیں، کوئی زور زبردستی نہیں ہوتی، جب تک زندہ رہتا ہے اسے یہ قدر و منزلت ملتی ہے اور مرنے کے بعد بھی لوگوں کی زبان پر ان کا ذکر خیر باقی رہتا ہے۔ صرف ان کی شکل و صورت غائب رہتی ہے ان کا کردار و عمل ہمیشہ سامنے رہتا ہے۔ اگر ہم آج تک کی انسانی تاریخ کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ عہد صحابہ سے لے کر آج تک کے علمائے دین کے نام بار بار لیے جاتے ہیں اور علمی مذاکروں، خطبات اور کتب میں تاریخ ان کا نام بار بار دہراتی ہے۔ جب کہ بڑے بڑے دنیاداروں اور مالداروں کے نام
[1] التاریخ الاسلامی / الحمیدی (12/242)۔ [2] التاریخ الإسلامی/ حمیدی (12/442)۔