کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 342
کی صنعت مال کے زائل ہونے سے زائل ہوجاتی ہیں۔ عالم سے محبت کرنا دین ہے جو کہ باقی رہتا ہے۔ علم عالم کی زندگی میں اسے دوسروں کی عزت و اطاعت سے نوازتا ہے، اور وفات کے بعد ذکر خیر کا سبب بنتا ہے، کتنے ہی اہل ثروت زندہ ہوتے ہوئے مردہ ہوتے ہیں جب کہ علماء ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، ان کا وجود ختم ہوجاتا ہے، لیکن ان کی یادیں اور مثالیں دلوں میں موجود رہتی ہیں۔‘‘[1] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے علم اور مال کے درمیان اس اعتبار سے موازنہ کیا کہ علم شرعی آخرت والوں کا ستون ہے۔ دنیا و آخرت میں ان کی عزت و سربلندی کا بندھن ہے۔ یہاں اس مال کی مذمت ہے جسے انسان صرف اپنی ذات کے لیے اکٹھا کرتا ہے اور شریعت الٰہی کے مطابق اس میں رب کی اطاعت نہیں کرتا، پھر مختلف انداز میں آپ نے اس حکمت کو نکھارا اور بیان کیا۔ الف:…علم، عالم کي نگہداشت کرتاہے، جبکہ مالدار، مال کي نگہداشت کرتا ہے: اس کی تفصیل یہ ہے کہ شرعی علم، عالم دین کو دنیا و آخرت کی ہلاکتوں سے بچاتا ہے، آخرت کی ہلاکتوں سے بچانے کی کیفیت تو واضح ہے کہ علم دین، عالم کو اللہ کی رضامندی اور جنت کی طرف لے جاتا ہے اور جہنم کے راستوں سے اسے دور رکھتا ہے اور دنیا کی ہلاکتوں سے بچانے کی کیفیت یہ ہے کہ اسی علم و یقین ہی سے انسان کو حقیقی روحانی سعادت مسیر آتی ہے۔ اس علم ویقین میں جس قدر پختگی ہوتی ہے اسی مقدار میں عالم کی نگاہوں میں دنیاکی قدر و قیمت گھٹتی جاتی ہے، اس کی تمام تر ناامیدیاں اور تکالیف اصحاب یقین کے لیے سلامتی اور سکون قلب کا ذریعہ سے بن جاتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ لوگ ان ناامیدیوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے او رنہ ہی ان تکالیف پر رنج کرتے ہیں جب کہ یہی چیزیں دنیا داروں کی دنیا کو جہنم میں بدل دیتی ہیں، اس لیے کہ دنیاوی زندگی ہی کو وہ اپنا اصل سرمایہ سمجھتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ ’’مالدار اپنے مال کی نگہداشت کرتا ہے‘‘ تو یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے، اور مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنے ہی ایسے دنیادار مالدار ہیں جو مال کے نقصان ہو جانے پر غم و افسوس سے ایسے ہی تڑپتے رہتے ہیں جیسا کہ ایک مریض تکلیف و بے چینی سے بستر مرگ پر تڑپتا ہے۔ یہ دنیا دار اپنے مال کی نگرانی و حفاظت کے لیے سوتے جاگتے اپنی جان کھپائے رہتے ہیں۔ اضطراب اور رنج و الم سے ٹوٹے رہتے ہیں۔[2]جب کہ علم کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے، یہ ایک عالم کو بصیرت کی روشنی عطا کرتاہے کہ وہ افضل کو اختیار کرے، گزشتہ امتوں کے واقعات سے عبرت حاصل کرے، او رانھیں کو سامنے رکھ کر زندگی گزارے۔ علم اختلافی مسائل میں آفاقی وسعت پیدا کرتا ہے، مصالح، مفاسد اور مقاصد کی معرفت عطا کرتا ہے، اوّلیّات و ترجیحات کی درجہ بندی کا منہج بتاتا ہے، تبھی علم والا علم کی روشنی لے کر لوگوں کے آگے آگے چلتا ہے۔
[1] حلية الأولياء (1/75) صفة الصفوة (1/329) [2] التاريخ الإسلامي/الحميدي (12/242)