کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 341
اور توجیہ کے وہی حقیقی اہل ہیں[1] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ربانی وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو حکمت کی غذا دیتے ہیں اور اسی پر ان کی پرورش کرتے ہیں۔[2]
ب:…طالب علم وہ ہیں جن کي نیتوں میں اخلاص ہو:
حصول علم میں اخلاص ضروری ہے، تاکہ یہی علم اللہ کے سامنے جواب دہی سے نجات کا ذریعہ سے بن سکے۔ علی رضی اللہ عنہ نے اسی نصیحت کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’طالب علم جو راہ نجات پر گامزن ہو‘‘ پس طالب علم سے صرف وہی طلباء مراد نہیں ہیں جو مدارس و جامعات میں پڑھتے ہیں اور خود کو طلبِ علم کے لیے فارغ کرلیا ہے۔ بلکہ یہ حکم ان تمام لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے اس دین کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری اپنے سر اٹھائی ہے، اور اُخروی نجات ہی ان کے نزدیک سب سے اہم ہے، چنانچہ وہ اپنے دینی معاملات میں علمائے ربانی کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ بصیرت و آگہی کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں اور نظام ربانی کے مطابق لوگوں سے اپنے معاملات درست رکھیں، ایسے تمام لوگ طالب علم ہیں، نجات کے راستہ پر گامزن ہیں، اگرچہ وہ علم کی درسگاہوں میں باضابطہ نہ شریک ہوئے ہیں۔[3] اس نصیحت میں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ہمیں طلب علم میں اخلاص نیت کی اہمیت بتانا چاہتے ہیں اور دعوت دیتے ہیں کہ دنیاوی مال و متاع اور خواہشات نفس پر اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کو مقدم رکھیں، کتاب الٰہی، سنت نبوی اور دین حق کی طرف لوگوں کو بلائیں اور اس راستہ کے مصائب پر صبر کریں۔
ج:…علم دین سے گریز اور علماء رباني سے دور رہنے والے:
جو لوگ علم دین حاصل کرنے سے گریز کرتے ہیں، اور علما ء ربانی سے دور بھاگتے ہیں، ان کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ رذالت پسند، بے وقوف اور ہر شور و شر کے پیچھے دوڑنے والے ہیں، جدھر کی ہوا ہو اسی طرف جھک جاتے ہیں ایسے لوگوں نے علم کا نور حاصل نہیں کیا۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے اس نصیحت میں ہنگامہ آرائی کی شیدا، بے وقوف، علم سے نابلد اور ہر ایک کے ہاں میں ہاں ملانے والی انسانی قسم کے بارے میں گفتگو کرکے ان سے خبردار رہنے کی تعلیم دی ہے۔ گویا آپ لوگوں کو بتلا رہے ہیں کہ انھیں حق کا متلاشی اور اس پر ثبات قدمی دکھانے والا بننا چاہیے، دنیا اور آخرت کو اللہ کی اطاعت سے آبادکرنا چاہیے، نور الٰہی سے روشنی حاصل کرکے دنیا کو آخرت کی سواری بنانا چاہیے۔
2۔ علم اور مال کا موازنہ:
کمیل بن زیاد کو نصیحت کرتے ہوئے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:
’’علم، مال سے بہتر ہے، علم تمھاری نگہداشت کرتا ہے اور مال کی تم نگہداشت کرتے ہو۔ علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے، جب کہ مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے، علم حاکم ہے، اور مال محکوم علیہ ہے، مال
[1] التاریخ الإسلامی (11، 12/438)۔
[2] الفتاوی (1/49)۔
[3] التاریخ الإسلامی/ الحمیدی (11،12/438)۔