کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 339
بیان ہے: پھر میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا، انھوں نے کہا:
((اَمَرْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم بِالْمَسْحِ عَلٰی خِفَاِنَا إِذَا سَافَرْنَا۔)) [1]
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہمارے موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے جب ہم سفر پر ہوں۔‘‘
٭ علوم و ادب کے بحر بیکراں سے جواہر پاروں کو چننے کے عادی تھے۔ آپ نے فرمایا:
’’علوم، احاطۂ حفظ سے بالاتر ہیں، اس لیے ہر علم کے محاسن کو حفظ کر لیا کرو۔‘‘[2]
آپ علم کے اتنے بلند مقام پر پہنچ گئے تھے کہ عراق میں خود ہی لوگوں سے کہتے تھے: مجھ سے پوچھو۔ چنانچہ سعید بن المسیب کا بیان ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی نہیں کہتا تھا کہ مجھ سے پوچھو۔[3] صحابہ ہوں یا تابعین سب کو آپ کے علم پر اعتماد تھا۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ اگر ہمیں ثقہ راوی کے ذریعہ سے کوئی مسئلہ علی رضی اللہ عنہ سے مل جاتا تو ہم اس کے برابر کسی کو نہ سمجھتے۔[4]
نیز انھیں سے دوسری روایت ہے کہ اگر کوئی ثقہ راوی ہم سے علی رضی اللہ عنہ کا کوئی فتوی بتاتا تو ہم اس سے تجاوز نہ کرتے۔[5]سوید بن غفلہ کا بیان ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی فتویٰ پوچھنے آیا کہ ایک شخص کی وفات ہوگئی، اس نے اپنی بیٹی اور بیوی کو وارث چھوڑا، دونوں کا کتنا حصہ ہوگا۔ سوید نے کہا: میں اس مسئلہ میں تمہیں علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بتاتا ہوں، اس آدمی نے کہا: بس تو میرے لیے علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ کافی ہے۔ آپ نے کہا: علی رضی اللہ عنہ نے میت کی بیوی کو 8/1(ایک بٹا آٹھ) اور لڑکی کو 2/1(آدھا) دیا تھا اور پھر جو بچا تھا اسے بھی لڑکی کو دے دیا۔[6]
لوگوں نے آپ کے علم کو سراہا ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ سن لو! وہ لوگوں میں سنت کے سب سے بڑے عالم ہیں۔[7]
معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جب جدید مسائل و حوادث پیش آتے تو آپ انھیں لکھ کر علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کراتے، یہی وجہ تھی کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو آپ کی وفات کی خبر ملی تو کہنے لگے: ابن ابی طالب کی موت سے فقہ و علم اٹھ گیا۔[8]
حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’کل تم سے ایک آدمی جدا ہوگیا، پہلے کے لوگ علم میں اس سے آگے نہ نکل سکے اور نہ ہی بعد والے اسے پاسکیں گے۔‘‘[9]
عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم! آپ الحمد للہ ، ما شاء اللہ اعلیٰ نسب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرابت، اور سسرالی رشتہ، اسلام
[1] مسند أحمد (2/195) اس کی سند صحیح ہے۔ تحقیق احمد شاکر۔
[2] تاریخ الیعقوبی (2/5)۔
[3] الاستیعاب ص (1103)۔
[4] الاستیعاب ص (1104)۔
[5] الطبقات (2/338)۔
[6] سنن الدارمی (2/385)۔
[7] الاستیعاب ص (1104)۔
[8] الاستیعاب ص (1108)۔
[9] فضائل الصحابۃ (2/295) اس کی سند صحیح ہے۔