کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 338
نیز آپ نے فرمایا:
’’علم، عمل کو پکارتا ہے، اگر عمل نے لبیک کہا تو بہتر ورنہ علم رخصت ہوجاتا ہے۔‘‘[1]
٭ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے مآثر حمیدہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ ان صحابہ کرام میں سے ایک تھے جو کثرت سے فتویٰ دیتے تھے، حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے جن لوگوں کے فتاویٰ منقول ہیں ان کی تعداد بشمول مرد و خواتین ایک سو تیس سے کچھ زیادہ ہے، ان میں سات صحابہ کثرت افتاء کے لیے مشہور ہیں، وہ ہیں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن مسعود، ام المومنین عائشہ، زید بن ثابت، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ۔[2]
علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے کثرت افتاء کے سلسلہ میں علی رضی اللہ عنہ کو ان صحابہ میں تیسرے درجہ میں شمار کیا ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں جہاں محکمۂ عدل و قضا کی بحث آئے گی وہاں آپ کے فقہی اجتہادات وفتاویٰ اور عدالتی فیصلوں کو ذکر کیا جائے گا۔
٭ آپ ایک دوسرے کی زیارت کرنے اور علمی مذاکرہ کرنے کی طرف رغبت دلاتے تھے، فرمایا:
’’ایک دوسرے کی زیارت کیا کرو، حدیث کا مذاکرہ کرلیا کرو، اسے خالی نہ چھوڑو کہ مٹ جائے۔‘‘[3]
ایک روایت میں ہے:
’’ایک دوسرے کی زیارت کیا کرو، حدیث پڑھا پڑھایا کرو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو وہ مٹ جائے گی۔‘‘[4]
آپ استاذ کی صحبت اور اس سے علم سیکھنے میں دلچسپی لینے پر ابھارتے تھے اور فرماتے:
’’استاذ کی طویل صحبت سے تم آسودہ نہیں ہوسکتے، وہ کھجور کے درخت کی طرح ہے جس سے ہر وقت کھجور گرنے کا انتظار رہتا ہے۔‘‘[5]
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو بچپن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و قرابت کا خوشگوار ماحول ملا، کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی گود میں پلے بڑھے،اور جب بڑے ہوئے تو اس میں عظمت کا چاند لگ گیا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور آپ کے نواسوں کے باپ بنے، اس طرح آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ قربت حاصل رہی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقہ کو دیکھتے اور سیکھتے، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہمیں بتاتی ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و معیت میں شب و روز رہتے تھے۔ مقدام بن شریح اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: مجھے ایسا صحابی بتائیے جس سے موزوں پر مسح کے سلسلہ میں فتویٰ پوچھ سکوں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: علی کے پاس جاؤ، وہ اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔ راوی کا
[1] منہج علی بن أبی طالب ص (63)۔
[2] أعلام الموقعین۔
[3] الجامع لأخلاق الراوی (1/236)۔
[4] شرف أصحاب الحدیث / البغدادی ص (93)۔
[5] تذکرۃ السامع ص (100)۔