کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 337
مقداد بن اسود سے کہا کہ وہ دریافت کریں، چنانچہ انھوں نے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فِیْہِ الْوُضُوْئُ۔))[1]… ’’اس سے وضو ہے۔‘‘ آپ لوگوں کو خبردار کرتے تھے کہ شرم و حیاء کی وجہ سے علم نہ چھوڑیں، آپ نے فرمایا: جس مسئلہ کے بارے میں علم نہ ہو اسے معلوم کرنے میں شرم نہ کرو۔ کوئی جاہل نامعلوم مسئلہ کو جاننے کے لیے حیا نہ کر۔ ٭ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ان چند مسلمانوں میں سے ایک تھے جو شروع اسلام میں لکھنا جانتے تھے، مزید برآں آپ کاتب وحی تھے، پڑھنے اور لکھنے میں آپ کی اسی مہارت نے آپ کو علوم شرعیہ میں غوطہ زنی کرنے کا اہل بنا دیا تھا، آپ کو نگارش کا یہ انداز پسند تھا کہ عبارتیں بالکل واضح ہوں، سطروں میں فاصلہ ہو، حروف میں قربت ہو، چنانچہ ابوعثمان عمرو بن بحر بن جاحظ کا بیان ہے کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’خط (تحریر) علامت ہے، جتنا ہی واضح ہوگا خوب صورت ہوگا۔‘‘[2] آپ نے اپنے کاتب عبید اللہ بن ابورافع کو یہ حکم دیا کہ اپنی دوات ٹھیک کرلو، قلم کی نوک موٹی کرلو، سطروں میں فاصلہ رکھو، حروف کو قریب قریب لکھو۔[3] ابوحکیمہ العبدی فرماتے ہیں کہ ہم کوفہ میں مصاحف لکھتے تھے اور دوران کتابت ہمارے پاس سے علی رضی اللہ عنہ گزرتے، فرماتے: اپنا قلم (خط) موٹا کرلو، چنانچہ میں قلم پر قط لگاتا، پھر لکھتا، توآپ کہتے: ہاں، جس طرح اللہ نے روشن کیا ہے اسی طرح تم روشن کرو۔[4] آپ نے جو کچھ سیکھا تھا اسے عملاً انجام دیتے، پوری کوشش کرتے کہ زبان رسالت سے جو کچھ سنا ہے اسے کرگزریں، اگرچہ حالات سخت نامساعد ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کی ایک جھلک ہم وہاں دیکھ چکے ہیں جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تھکاوٹ دور کرنے کے لیے سونے سے قبل کے اذکار سکھائے تھے۔ اس پر اہتمام کا یہ عالم تھا کہ امیر المومنین فرماتے ہیں: ’’جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ نصیحت سنی ہے کبھی نہ چھوڑا، لوگوں نے پوچھا: کیا معرکۂ صفین کی رات میں بھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں، صفین کی رات میں بھی۔‘‘[5] آپ نے نصوص شریعت کو عمل کے ذریعہ سے محفوظ کرنے کی تعلیم دی ہے فرمایا: ’’علم سیکھو، وہی تمھاری شناخت ہوگی اور اس پر عمل کرو تم اس کے اہل ہو جاؤگے۔‘‘[6] آپ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ جب تک عالم باعمل نہ ہو، اسے عالم نہیں کہنا چاہیے، اسی لیے حاملین علم کو مخاطب کرکے فرماتے تھے: ’’اے کاروانِ علم! علم پر عمل کرو، کیونکہ عالم وہی ہے جو باعمل ہو، اس کے علم اور عمل میں تضاد نہ ہو۔‘‘[7]
[1] صحیح مسلم (1/247)۔ [2] الجامع لأخلاق الراوی (1/262)۔ [3] الجامع لأخلاق الراوی (1/262)۔ [4] الجامع لأخلاق الراوی (260)۔ [5] صحیح مسلم (4/2091، 2092)۔ [6] البدایۃ و النہایۃ (8/6)۔ [7] جامع بیان العلم و فضلہ ص (285)۔