کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 336
تب میں اس کی تصدیق کرتا۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، وہ اپنے اس بیان میں صادق ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
((مَا مِنْ عَبْدِ یَذْنُبُ ذَنْبًا فَیُحْسِنُ الطَّہُوْرَ ثُمَّ یَقُوْمُ فَیُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ یَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ إِلَّا غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ۔))
’’جب کوئی بندہ گناہ کرتا ہے اور پھر اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر کھڑا ہوتا ہے اور دو رکعت نماز پڑھتا ہے پھر اللہ سے استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ یقینا اسے معاف کردیتا ہے۔‘‘
پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾(آل عمران:135)[1]
’’اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون گناہ بخشتا ہے؟ اور انھوں نے جو کیا اس پر اصرار نہیں کرتے، جب کہ وہ جانتے ہوں۔‘‘
جی ہاں! علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قسم لیتے تھے، حالانکہ تمام صحابہ ثقہ و عادل تھے، گویا آپ کا یہ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ دوسروں کی زبان سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم قبول کرنے میں بہت تحقیق و احتیاط کرتے تھے۔[2] آپ مسائل کے استفسار میں بے باک تھے، حساس طبیعت کے مالک تھے، آپ اپنے بارے میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے انتہائی سمجھ دار دل اور پوچھنے والی زبان عطا کی ہے۔‘‘[3]
آپ نے اپنی کثرت علم کی وجہ یہ بات بتائی کہ آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت مسائل پوچھتے رہتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’جب میں پوچھتا تھا تو بتایا جاتا تھا اور اگر خاموش رہتا تو مجھ ہی سے سوال ہوجاتا۔‘‘[4]
اگر کسی مسئلہ کے استفسار میں میرے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حیا مانع ہوتی تو صحابہ کرام میں سے کسی سے یہ کہتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھو، چنانچہ محمد بن حنفیہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: مجھ مذی کثرت سے آتی تھی، میں نے خود اس مسئلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہوئے شرم محسوس کی، اس لیے
[1] صحیح سنن الترمذی (1/128) مشکاۃ المصابیح (1/416)۔
[2] منہج علی بن أبی طالب فی الدعوۃ ص (52)۔
[3] الطبقات(2/338) الحلیۃ (1/67)۔
[4] فضائل الصحابۃ (2/647) اس کی سند صحیح ہے۔