کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 335
مآثر و اوصاف:
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سراپا قیادتِ ربانی اور کتاب الٰہی، سنت نبوی نیز اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جاں نثاری کے پیکر تھے، یہاں آپ کے چند مآثر کو اجمالاً اور چند کو تفصیلاً بیان کیا جارہا ہے۔ آپ کے اہم اوصاف یہ ہیں کہ آپ عقیدہ، علم شریعت، توکل علی اللہ، قدوہ، صدق و صفا، کمال و صلاحیت، شجاعت، مروت اور زہد و ورع میں کامل تھے، جاں نثاری محبوب تھی، اپنے معاونین کے انتخاب کا حسین ملکہ تھا، تواضع، بردباری اور صبر کی زندہ تصویر تھے، عالی ہمت، پختہ ارادہ کے مالک اور جو ٹھان لیتے کر گزرتے، عادل تھے، تعلیم و تربیت اور قائدانہ صلاحیت کے مالک تھے، ان کے علاوہ بھی بے شمار خوبیاں تھیں ان میں سے بعض اوصاف کو ان کی مکی زندگی سے جب کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور بعض مدنی زندگی سے جب کہ غزوات نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر شریک تھے، نیز بعض اوصاف کو آپ کی معاشرتی زندگی سے اخذ کیا گیا ہے اور آپ کی بعض دیگر خوبیاں اس وقت منظر عام پر آئیں جب آپ نے اسلامی حکومت کی قیادت سنبھالی اور امیر المومنین بنے۔ آپ کے چند اہم اوصاف کا یہاں خاص طور سے ذکر کیا جارہا ہے۔
دینی علم و بصیرت:
امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ بڑے ممتاز علماء صحابہ میں سے ایک تھے، حصول علم کے لیے آپ کی کوشش اور تڑپ منفرد تھی، مذاکرہ کے انتہائی شوقین تھے، اس دور میں معلومات محفوظ کرنے کے جو ذرائع تھے خواہ تحریر ہو یا حافظہ پر اعتماد، انھیں استعمال کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہتے، حفظ قرآن کے لیے اپنی محنت و لگن کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’میں نے قسم کھا لی تھی کہ جب تک قرآن حفظ نہ کرلوں گا نماز کے علاوہ اپنے جسم پر چادر نہ ڈالوں گا۔‘‘[1]
اور فرمایا:
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب جبریل علیہ السلام کسی حلال یا حرام، کسی کتاب یا سنت اور امریا نہی کی وحی لے کر آتے تو جب تک میں اسے اسی روز معلوم نہ کرلیتا اور یہ کہ کس کے بارے میں یہ وحی نازل ہوئی ہے، تب تک نہ مجھے اونگھ آتی تھی اور نہ ہی نیند آتی۔‘‘[2]
آپ نصوص شریعت کو حرفاً حرفاً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھتے اور یاد کرتے تھے، لیکن اگر کسی دوسرے سے حدیث نبوی سنتے تو اسے قبول کرنے میں سخت احتیاط برتتے، مبادا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات منسوب ہوجائے جسے آپ نے نہیں کہا ہے۔آپ کے اس طرز عمل کی دلیل آپ کا یہ قول ہے: میں ایسا آدمی تھا کہ اگر راست طور سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو اللہ اس سے مجھے جتنا فائدہ دینا چاہتا دیتا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کوئی دوسرا آپ کی حد یث مجھ سے بیان کرتا تو میں اس سے قسم لیتا، اگر وہ قسم کھا لیتا
[1] الطبقات (2/338)۔
[2] مسند الإمام زید ص (343) بحوالہ: منہج علی بن أبی طالب فی الدعوۃ۔