کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 333
(2) فضائل،مآثر و اوصاف اور نظام حکومت کے اصول و قواعد امام احمد، اسماعیل القاضی، النسائی اور ابو علی نیساپوری رحمہم اللہ کا قول ہے کہ فضائل علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جید اسانید کے ذریعے سے جس قدر روایات وارد ہیں کسی صحابی کے بارے میں اتنی نہیں ہیں۔ [1] حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: "اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ سب سے آخر میں آئے، یعنی خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ ہوئے، آپ کے زمانے میں اختلاف رونما ہوا اور بغاوت کرنے والوں نے بغاوت کیا، پس یہ تمام باتیں سبب بن گئیں کہ فضائل علی کا علم رکھنے والے صحابہ نے مخالفین کی تردید میں ان فضائل و مناقب کو کثرت سے عام کیا اور بعد میں جب افتراق شروع ہوا تو اہل سنت و جماعت نے ضرورت محسوس کی کہ آپ کے فضائل کو خوب عام کیا جائے۔ اسی وجہ سے ان فضائل کے ناقلین بھی زیادہ ہوئے۔ ورنہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ خلفائے اربعہ میں سے ہر ایک کو جو فضائل ہیں اگر انہیں میزان عدل پر تولا جائے تو اہل سنت و جماعت کے قول سے ہٹ کر کوئی بات سامنے ہرگز نہ آئے گی۔" [2] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "آپ کی ایک بڑی فضیلت ہے کہ عشرہ مبشرہ میں باعتبار حسب و نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی ہیں۔" [3] گزشتہ صفحات میں موقع بہ موقع آپ کے متعدد فضائل کا تذکرہ ہو چکا ہے، تاہم مزید فائدہ و معلومات کے لیے یہاں چند اور فضائل کو ذکر کیا جا رہا ہے۔ ٭ زِر بن حبیش رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے بیج سے غلہ اگایا اور روح کو وجود بخشا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے وصیت کیا تھا کہ: ((ان لا يحبني إلا مومن ولا يبغضني إلا منافق)) [4]
[1] فتح الباري (7/71) [2] یعنی خلافت میں ترتیب کے اعتبار سے ان کے فضائل کے بھی مراتب ہیں۔ فتح الباري (7/71) [3] البداية والنهاية (11/29) [4] الصحيح المسند في فضائل الصحابة ص (111)