کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 330
((أَلَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ ِمنْ مُّوْسٰی۔))[1] ’’کیا تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھیں مجھ سے وہی منزلت حاصل ہوجو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔‘‘ اس لیے متعصب روافض امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے حق میں علیہ السلام یا کرم اللہ وجہہ استعمال کرنے لگے۔ ہم بھی اس بات سے متفق ہیں اور مانتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اس کے اہل ہیں، لیکن ہمارے اور روافض میں فرق یہ ہے کہ اس منزلت میں ہم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تمام صحابہ کرام کو مشترک مانتے ہیں۔[2] بہت سارے ناقلین کتب کی عبارتوں میں حتی کہ بعض علماء اہل سنت کے نزدیک یہ چیز دیکھی گئی ہے کہ وہ دیگر صحابہ کو چھوڑ کر صرف علی رضی اللہ عنہ ہی کے لیے علیہ السلام یا کرم اللہ وجہہ لکھتے ہیں، یقینا اس کا معنی بالکل درست ہے لیکن مناسب یہ ہے کہ تمام صحابہ کو اس درجہ میں برابر رکھا جائے۔[3] 
[1] صحیح البخاری حدیث نمبر (4416)۔ [2] فتاوی فی التوحید / عبداللہ بن جبرین ص (37)۔ [3] الناہیۃ عن طعن امیر المومنین معاویہ ص (26) دیکھئے: حاشیہ و تعلیق از أحمد التویجری۔ انبیائ، صحابہ اور صالحین امت کے درمیان امتیاز اور فرق مراتب کا تقاضا ہے کہ انبیاء کے لیے علیہ السلام ، صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ اور صالحین کے لیے رحمۃ اللہ علیہ استعمال کیا جائے۔ (مترجم)