کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 329
رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ (التوبۃ:100) ’’اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا۔‘‘ اور فرمایا: لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ (الفتح:18) ’’بلاشبہ یقینا اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے۔‘‘ چنانچہ انھیں آیات کے پیش نظر اہل سنت نے یہ اصطلاح ایجاد کی کہ جب کسی صحابی کا ذکر آئے، یا اس سے کوئی حدیث روایت کی جائے تو اس کے لیے رضی اللہ عنہ کہا جائے۔ مثلاً روایت یوں بیان ہو: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔‘‘ میری معلومات کی حد تک کسی صحابہ کے لیے ’’السلام‘‘ کالفظ شریعت میں نہیں مستعمل ہے۔ باوجودیہ کہ سلام مسلمانوں کا باہمی تحیہ ہے، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّـهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ (النور:61) ’’پھر جب تم کسی طرح کے گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں پر سلام کہو، زندہ سلامت رہنے کی دعاجو اللہ کی طرف سے مقرر کی ہوئی بابرکت، پاکیزہ ہے۔‘‘ اسی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کے حق میں ’’ علیہ السلام ‘‘ کے بالمقابل ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ کہنا افضل و برتر ہے۔ اللہ نے فرمایا: وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ (التوبۃ:72) ’’اور اللہ کی طرف سے تھوڑی سی خوشنودی سب سے بڑی ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت والوں سے کہے گا: ((اُحِلُّ عَلَیْکُمْ رِضْوَانِیْ فلَا أَسْخُطْ عَلَیْکُمْ أَبَدًا۔))[1] ’’میں اپنی رضا مندی کو تم پر حلال کردیتا ہوں، میں تم سے کبھی نہ ناراض ہوں گا۔‘‘ اسی طرح علما سلف اس بات سے متفق ہیں کہ ’’سلام‘‘ کا کلمہ اگرچہ تحیۃ بین المسلمین کے لیے مستعمل ہوتاہے، لیکن اس کا خصوصی استعمال انبیاء کرام کے لیے ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ﴿١٨١﴾ (الصافات:181)… ’’پیغمبروں پر سلام ہے۔‘‘ یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ (مریم:15)… ’’اس پر سلام ہے جس دن وہ پیدا ہوا۔‘‘ چونکہ علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد وارد ہے کہ:
[1] مشکوٰۃ المصابیح / التبریزی (3/88)۔