کتاب: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 328
شیعہ ، روافض اور خوارج جیسے گمراہ فرقوں کی تردید میں لکھے گئے ہیں۔[1] اس لیے کہ روافض شیعہ لفظِ ’’امام‘‘ کو خلافت کے معنی میں نہیں مانتے، بلکہ اسے اپنے ایمان کا ایک رکن مانتے ہیں، ان کے نزدیک امامت اور خلافت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ امامت سے مراد دین کی سیادت ہے، جب کہ خلافت سے مراد ملک کی سیادت ہے۔[2] اس تفریق کے پس پردہ وہ یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے تینوں پیشرو خلفاء کے زمانہ میں امام تھے۔[3] ابن خلدون فرماتے ہیں: ’’شیعہ حضرات لفظ ’’امام‘‘ علی رضی اللہ عنہ کے لیے خاص مانتے ہیں، تاکہ آپ کو خلافت کی بہن امامت سے متصف کریں، ساتھ ہی اپنے اس مذہب کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وفات نبوی کے وقت علی رضی اللہ عنہ ، ابوبکر سے زیادہ نماز کی امامت کے مستحق تھے۔‘‘[4] بہرحال صحیح بات یہ ہے کہ خلیفہ، امام، یا امیر المومنین جیسے القاب کا تعلق امور عبادت سے نہیں ہے، بلکہ یہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کی اصطلاحات ہیں، جنھیں لوگوں نے استعمال کیا ہے اور اس پر متفق رہے ہیں۔ بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے اس منصب کے لیے ان کے علاوہ دیگر القاب کو بھی استعمال کیا ہے جیسا کہ اندلس میں حاکم کو ’’امیر‘‘ کا لقب دیا جاتا تھا۔ اسی طرح کہیں کہیں ’’سلطان‘‘ کا بھی لقب دیا گیا، اور اب بھی بعض اسلامی ممالک میں حکام کو مذکورہ القاب میں سے کوئی لقب دیا جاتا ہے، کیونکہ اس مسئلہ میں وسعت ہے۔ اس باب میں بنیادی طور سے صرف یہ مطلوب ہے کہ مسلم رعایا اور اس کا حاکم اعلیٰ دونوں ہی عقیدہ و شریعت کے لحاظ سے اسلامی قوانین کے پابند ہوں، القاب کا مسئلہ اتنا اہم نہیں ہے اسے خلیفہ کہا جائے، امیر المومنین کہا جائے، صدر مملکت کہا جائے، یا صدر جمہوریہ کہا جائے، کوئی بھی لقب دیا جاسکتاہے، یہ چیز عوام کے عرف و عادت پر منحصر ہے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ مسلم حاکم اعلیٰ کے لیے مذکورہ اسلامی القاب میں سے کسی لقب کا اختیار کرنا ہی افضل ہے، کیونکہ ان اسلامی القاب کا سیاسی مفہوم، دیگر اقوام کے نزدیک ان کے مختلف مفاہیم سے بالکل جداگانہ ہے اور اس لیے بھی کہ تاریخ کے صفحات میں ان کے جو معانی معہود ہیں وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کی شناخت رہے ہیں۔[5] 7۔ تذکرۂ علی کے وقت ’’رضی اللہ عنہ‘‘ یا ’’کرم اللہ وجہہ‘‘ یا ’’علیہ السلام‘‘ اصل یہ ہے کہ جب صحابۂ کرام میں سے کسی کا بھی ذکر ہو تو ان کے لیے رضی اللہ عنہ کہا جائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ
[1] الإمامۃ العظمی عند أہل السنۃ والجماعۃ / الدمیجی ص (36)۔ [2] الإمامۃ العظمی عند أہل السنۃ والجماعۃ / الدمیجی ص (36)۔ [3] الإمامۃ العظمی عند أہل السنۃ والجماعۃ / الدمیجی ص (36)۔ [4] نظام الحکم / عارف خلیل ص (81)۔ [5] نظام الحکم / عارف خلیل ص (82)۔